تحقیقاتی صحافیوں کو قتل کی دھمکیاں، منصوبہ ناکام صحافتی برادری میں شدید اضطراب، اعلیٰ اداروں سے فوری نوٹس کا مطالبہ
اسلام آباد / راولپنڈی (خصوصی نمائندہ)
جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد کی صحافی برادری میں شدید تشویش اور اضطراب کی لہر دوڑ گئی ہے، جب معروف تحقیقاتی صحافی ملک زبیر اور طاہر نصیر کو سنگین نتائج کی بارہا دھمکیاں دینے کے بعد، انہیں قتل کرنے کی منصوبہ بندی کرنے والے افراد کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ملزمان کی گرفتاری کے باوجود انتہائی کمزور دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا، جس سے انصاف کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ مزید یہ کہ عدالت نے بھی ملزمان کو پولیس ریمانڈ پر دینے کے بجائے براہِ راست جیل کسٹڈی میں بھیج دیا، جس پر صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
تحقیقاتی صحافی ملک زبیر اور طاہر نصیر طویل عرصے سے کرپشن، جرائم اور سماجی ناانصافیوں کو بے نقاب کرنے میں سرگرم ہیں۔ ان کی ان تحقیقی رپورٹس کے نتیجے میں کئی طاقتور گروہوں اور جرائم پیشہ عناصر کو بے نقاب کیا گیا، جس کے باعث انہیں بارہا جان سے مارنے اور اغوا کی دھمکیاں دی جاتی رہی ہیں
اس سنگین صورتحال پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ)، نیشنل پریس کلب اسلام آباد، راولپنڈی پریس کلب، اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) نے مشترکہ طور پر شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحقیقاتی صحافت پر دباؤ ڈالنے کی یہ کوششیں آزادیِ اظہارِ رائے اور آئینی حقوق پر حملہ ہیں۔
تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ اس معاملے کا فوری طور پر اعلیٰ سطحی عدالتی نوٹس لیا جائے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے (پولیس، ایف آئی اے، نیکٹا) اس کیس کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تفتیش کریں۔
عوامی اور صحافتی حلقوں نے صدرِ مملکت پاکستان، وزیراعظم، چیف جسٹس آف پاکستان، وزیرِ داخلہ، آئی جی اسلام آباد، آئی جی پنجاب، چیئرمین پیمرا، اور وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات سے اپیل کی ہے کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں اور صحافیوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کریں
بیانات میں کہا گیا ہے کہ اگر اس کیس میں انصاف کے تقاضے پورے نہ کیے گئے تو یہ واقعہ پاکستان میں تحقیقاتی صحافت کے لیے سنگین خطرہ بن جائے گا۔ ملک زبیر، طاہر نصیر اور دیگر صحافیوں کو ریاستی تحفظ فراہم نہ کیا گیا تو اس سے آزادیِ صحافت اور سچ بولنے کی حوصلہ شکنی ہوگی
صحافتی برادری نے واضح کیا ہے کہ وہ اس معاملے پر خاموش نہیں بیٹھے گی اور اگر حکومت و ادارے حرکت میں نہ آئے تو قومی سطح پر احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی تاکہ سچ لکھنے اور بولنے والوں کی آواز کو دبانے کی ہر کوشش ناکام بنائی جا سکے