تحریک انصاف کارکنان کے موجودہ قیادت پر شدید تحفظات کا اظہار، 43 سال پہلے بھٹو اور آج عمران خان ۔ حماد اظہر،اسد قیصر،عمر ایوب،بیرسٹر گوہر،اور مروت اب مشکوک نظر آ رہے ہیں

تحریک انصاف کارکنان کے موجودہ قیادت پر شدید تحفظات کا اظہار،

43 سال بعد تاریخ خود کو دہرا رہی ہے
43 سال پہلے بھٹو اور آج عمران خان

بھٹو نے جیل میں کہا تھا لگتا ہے میری پارٹی کے لوگوں کو زندہ سے زیادہ مردہ بھٹو کی ضرورت ہے اپنے اقتدار کے لیے
بھٹو کو مروانے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی اس وقت کی قیادت کی نااہلی کا ہاتھ تھا پھانسی کے بعد جلاؤ گھیراؤ بھی عام کارکنوں نے کیا لیکن تب وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا
بھٹو کے چہلم پر گڑھی خدا بخش میں کارکنان نے بھٹو کے کزن اور اس وقت کے مرکزی راہنماء ممتاز بھٹو کو گھیر لیا اور انہیں بینظر بھٹو اور نصرت بھٹو کی رہائی کے لیئے سخت احتجاجی اور قانونی اقدامات اٹھانے کا کہا تو
اس وقت ممتاز بھٹو کے الفاظ تھے ” کہ اگر آپ کہتے ہیں تو میں جنرل ضیاء سے بات کرتا ہوں” اس پر ورکر بپھر گئے اور موصوف جان بچا کر وہاں سے بھاگ نکلے
آج تاریخ خود کو دہرا رہی ہے آج بھٹو نہیں لیکن عمران خان ہے آج پیپلز پارٹی نہیں تحریک انصاف ہے تقریبا 43 سال پر محیط اس سفر میں سیاست دانوں نے کچھ نیا نہیں سیکھا۔ آج بھی وہی باتیں وہی دعوئے دہرائے جا رہے ہیں جو آج سے 43 سال پہلے پیپلز پارٹی کی قیادت کر رہی تھی۔
عمران خان کو کچھ ہوا تو یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے پیپلز پارٹی کی قیادت نے بی بی شہید کی شہادت کیبعد بس ایک ہفتہ اجتجاج کیا اور ریاستی و نجی املاک کو جلایا اللہ نا کرے خان کو کچھ ہو گیا تو تحریکی کیا کریں گے!!!!

بھٹو کو جب پھانسی دی جارہی تھی تو اس وقت کی قیادت کا جو حال اور کردار تھا اب وہی حال اور کردار تحریک انصاف کی قیادت کا ہے جس کی بزدلی اور واضح ہدف سے دوری وہ نقصان کروا دیگی جس کا ازالہ کبھی نہیں ہو سکے گا
پی ٹی آئی کے لئے سیاسی کشمکش کا سب سے بڑا معرکہ پنجاب میں ہے اور پارٹی کی مرکزی قیادت لاہور کی طرف منہ کرنے سے خوفزدہ ہے ۔ تمام فرنٹ لائن قیادت یا تو بزدل ھے یا مصلحتی مفاہمتی کردار کا وعدہ کر بیٹھے ہیں۔اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
محض بیانات، پریس کانفرنرسسز خان سے ملاقات تک کی حکمت عملی نے کارکنان کو شدید کشمکش میں مبتلا کئے رکھا ہے۔ کارکنان میں قیادت کے حوالے سے مایوسی، بےزاری جنم لے رہی ہے۔
حماد اظہر،اسد قیصر،عمر ایوب،بیرسٹر گوہر،اور مروت اب مشکوک نظر آ رہے ہیں

عمران خان نے پی ٹی آئی کی قیادت وکلاء کو اس لئیے سونپ دی تھی کہ وکلاء قانونی دائرے میں رہتے ہوئے مضبوط مزاحمتی تحریک چلانے میں بہترین حکمت عملی رکھتے ہیں مگر ایسا نہیں ہوا، قیادت نے جو تحریک چلانی تھی وہ ان سے چلائی نہیں گئی۔ نشستیں بھی ہاتھ سے گئی باوجود اس کے ابھی بھی ان کی ترجیحات میں خان سے ملاقات تو ہے مگر خان کی رہائی نہیں ہے۔

اب تک تحریک انصاف کی مفلوج قیادت نے بہت نقصان پہنچا دیا ہے انکی کوٸی سمت ہی نہیں کہ کیا کرنا ہے اور کیا اہم ہے ہر ایک اکیلا دوڑ دوڑ کر ہانپ رہا ہے
پی ٹی آئی قیادت اب یہ تاثر دے رہی ہیکہ یہ بجو سیٹ اپ بن چکا ہے اب بس اسی کے ساتھ چلنا ہے ۔ جو کُچھ کہنا ہے کرنا ہے اسمبلی میں کہیں گے اور کریں گے، عوام کے ساتھ سڑکوں پر نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں