جسٹس ملک شہزاد احمد خان گھیبہ نے بطور 52 ویں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے عہدے کا حلف لے لیا،، گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن نے ان سے حلف لیا، تقریب میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف بھی شریک

جسٹس ملک شہزاد احمد خان گھیبہ نے بطور 52 ویں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے عہدے کا حلف لے لیا،، گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن نے ان سے حلف لیا،،حلف برداری تقریب میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف بھی شریک ہوئیں۔

جسٹس ملک شہزاد احمد خان لاہور ہائی کورٹ کے 52 ویں چیف جسٹس ہیں۔ حلف برداری کی سادہ و پر وقار تقریب گورنر ہاؤس میں منعقد ہوئی جس میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے خصوصی شرکت کی۔ جبکہ اس موقع پر لاہور ہائی کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس شجاعت علی خان، جسٹس علی باقر نجفی، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹ عالیہ نیلم، جسٹس عابد عزیز شیخ اور جسٹس صداقت علی خان سمیت دیگر فاضل ججز، صوبائی وزراء، وفاقی و صوبائی لاءافسران، کور کمانڈر لاہور، آئی جی پنجاب پولیس، جوڈیشل افسران اور لاہور ہائی کورٹ کے افسران سمیت فاضل چیف جسٹس کے عزیزواقارب بھی موجود تھے۔ چیف سیکرٹری پنجاب زاہد زمان نے چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن پڑھا،،حلف برداری کے بعد لاہور ہائیکورٹ پہنچنے پر چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ شیخ خالد بشیر نے لاہور ہائیکورٹ افسران کے ہمراہ فاضل چیف جسٹس کو گلدستہ پیش کیا۔ بعدازاں پولیس کے چاک و چوبند دستے نے فاضل چیف جسٹس کو گارڈ آف آنر بھی پیش کیا

لاہور ہائیکورٹ کے ریکارڈ کے مطابق نئے چیف جسٹس 1 سے زائد مدت کے لیے اس عہدے پر فرائض سر انجام دیں گے۔

جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس ملک شہزاد احمد گھیبہ کا بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ تقرر کرنے کی منظوری کے بعد صدر مملکت عارف علوی نے بھی ان کی تعیناتی کی منظوری دے دی

جسٹس ملک شہزاد احمد خان کا تعارف اور وکلا سیاست میں کردار؟

لاہور ہائی کورٹ ریکارڈ کے مطابق جسٹس ملک شہزاد احمد خان 15 مارچ 1963 کو پنڈی گھیب ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے گورڈن کالج راولپنڈی سے گریجویشن کی، 1989 میں یونیورسٹی لا کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور 1990 میں راولپنڈی میں قانون کی پریکٹس شروع کی۔

وہ 1993 میں ہائی کورٹ اور 2004 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل بن گئے اور 21 سال بطور وکیل پریکٹس کی۔
جسٹس ملک شہزاد احمد خان 2004 میں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی کے سیکرٹری جنرل اور 2009 میں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی کے صدر منتخب ہوئے۔ 12 مئی 2011 کو لاہور ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج مقرر ہوئے اور 11 مئی 2013 کو مستقل جج بن گئے۔

جسٹس ملک شہزاد احمد خان بطور چیف جسٹس 15 مارچ 2025 کو عہدہ سے ریٹائر ہوں گے۔ اس طرح وہ ایک سال چھ دن تک چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہیں گے۔

جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے گذشتہ روز بدھ کو لاہور میں وکلا کی تقریب سے خطاب میں کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں، وکلا آزاد عدلیہ، آئین اور قانون کی حکمرانی میں موثر کردار ادا کر رہے ہیں۔ لیکن پانچ فیصد وکلا یا ان کے بھیس میں جو لوگ بار میں ہیں ان کی وجہ سے سب بدنام ہیں۔ ملک کے حالات آپ سب کے سامنے ہیں موجودہ حالات میں عدلیہ اور وکلا ہی سب کی امید ہیں۔‘

انہوں نے کہا ’ججز بغیر کسی لالچ اور خوف کے فیصلے جاری کریں پنجاب میں 14 لاکھ کیسز ہیں ان کو نمٹانے میں سب کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ ماتحت عدلیہ کے ججز چیمبر کے بجائے کورٹ روم میں بیٹھنے کو ترجیح دیں۔‘

’میں سمجھتا ہوں ادارے کی بہتری کے لیے ماتحت عدلیہ کا کردار بہت اہم ہے ماتحت عدلیہ کے ججز جتنا کام کرتے ہیں دوسرے اداروں کے لوگ نہیں کرتے۔ مجھے دو، تین ممالک کے عدالتی نظام کو دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ ہانگ کانگ کی سپریم کورٹ میں کل 70 کیس تھے، ہمارے ججز کے پاس ان کی کپیسٹی سے پانچ گنا زیادہ کیس ہوتے ہیں، ماتحت عدلیہ کے ججز میں سے چند ایسے لوگ ہیں جن کی اصلاح کی انتہائی ضرورت ہے، ماتحت عدلیہ میں 700 ججز کی کمی ہے اس کے باوجود ججز کی کارکردگی قابل ستائش ہے۔‘

بطور جج اہم فیصلے اور چیلنجز:

صدر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اسد منظور بٹ نے سے گفتگو میں کہا کہ ’بطور جج وہ بہت قابل اور بااصول شخصیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔ وہ ہمیشہ بار اور بینچ کے تعلق کو فروغ دینے پر یقین رکھتے ہیں۔‘

’ان کی تقرری سے وکلا کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور انہیں درپیش مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وہ رول آف لا کے ساتھ اپنی رہنمائی سے وکلا کو بھی سائلین کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے میں کردار ادا کرتے رہیں گے۔‘

لاہور ہائی کورٹ کے سینیئر قانون دان میاں داؤد نے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جسٹس ملک شہزاد احمد فوجداری اور آئینی کیسوں سے متعلق بہترین جج کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہیں کسی بھی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر بہادری سے فیصلے کرنے والے جج کے طور پر جانا جاتا ہے۔‘

’انہوں نے 2019 میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف درج نیب مقدمات سے متعلق درخواستوں پر بھی سماعت کی، اس دوران ان کی سربراہی میں قائم بینچ نے نیب کی جانب سے گرفتار وزیر اعظم شہباز شریف اور سابق وزیر اعلی پنجاب حمزہ شہباز کی ضمانتیں منظور کیں۔‘
میاں داؤد کے بقول، ’جب بھی کوئی آئینی درخواست ان کے سامنے آئی تو انہوں نے قانونی پہلوؤں سے وکلا کی بحث کے بعد آئین و قانون کے مطابق ہی فیصلے دیے۔ وکلا جب ان کے سامنے کسی کیس میں پیش ہوتے ہیں تو پوری تیاری کے ساتھ پیش ہونا پڑتا ہے کیونکہ قانونی حوالوں کے بغیر وہ بحث سننے سے گریز کرتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جسٹس ملک شہزاد احمد خان کو عہدہ سنبھالتے ہی پنجاب کی ماتحت عدلیہ میں 13 لاکھ سے زائد جبکہ لاہور ہائی کورٹ میں دو لاکھ سے زائد زیر التوا کیسز کو بروقت نمٹانے کا چیلنج ہو گا۔ لاہورہائی کورٹ میں آٹھ مارچ کو ججز کی تعداد 38 رہ جائے گی اور مجموعی طور پر 22 ججز کی خالی آسامیوں کو پُر کرنا بھی ایک بڑا چیلنج ہو گا، کیونکہ گزشتہ ڈھائی برس سے لاہور ہائی کورٹ میں ایک جج کی بھی تقرری نہ ہونے سے انصاف کی بروقت فراہمی متاثر ہوئی ہے۔‘

میاں داؤد نے کہا کہ ’لاہور میں مقامی عدالتوں کی تقسیم سے متعلق وکلا گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے ہڑتال پر ہیں جبکہ لاہور میں کیسز کی سماعت بھی نہ ہونے سے سائلین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ امید ہے کہ جسٹس ملک شہزاد احمد خان تمام مسائل کا مثبت انداز میں کوئی حل نکالیں گے۔‘
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ملک شہزاد احمد خان نے لاہور ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی کی تشکیلِ نو کردی۔

7 رکنی انتظامی کمیٹی چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ملک شہزاد احمد خان شامل ہیں۔

سینیئر ترین جج جسٹس شجاعت علی خان بھی شامل

جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس شاہد بلال حسن انتظامی کمیٹی میں شامل

جسٹس مس عالیہ نیلم اور جسٹس عابد عزیز شیخ بھی انتظامی کمیٹی کے رکن۔

جسٹس صداقت علی خان بھی 7 رکنی انتظامی کمیٹی میں شامل ہو گئے۔

رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ شیخ خالد بشیر نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں