گلگت بلتستان کی معروف شخصیت ملکہ بلتستانی انتقال کرگئیں . ملکہ بلتستانی کافی عرصے سے علیل تھیں اور امریکا میں زیر علاج تھیں ان کی میت امریکا سے پاکستان منتقل کی جائے گی اور تدفین آبائی علاقے بلتستان میں ہوگی۔۔۔

گلگت بلتستان کی معروف شخصیت ملکہ بلتستانی انتقال کرگئیں . ملکہ بلتستانی کافی عرصے سے علیل تھیں اور امریکا میں زیر علاج تھیں ان کی میت امریکا سے پاکستان منتقل کی جائے گی اور تدفین آبائی علاقے بلتستان میں ہوگی۔۔۔
____________________________

ملکہ بلتستانی ایک بے باک اور بابصیرت خاتون: سوانحی خاکہ

تحریر: نذیر بیسپا

گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ کی ایک قابل فخر ہستی اور مزاحمتی تحریکوں کی بانی ملکہ بلتستانی طوالت علالت کے بعد آج 30 مئی 2021 کو امریکا میں اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ پوری زندگی گلگت بلتستان کے حقوق کے لیے مردانہ وار لڑنے والی یہ خاتون 1946 کو پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے کینئرڈ کالج سمیت لاہور سے حاصل کی تھی لیکن بالآخر کراچی ہی میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔1968میں انہوں نے گلگت بلتستان کے متنازعہ خطے کے لیے فرنٹئیر کرائمز ریگولیشن (F.C.R) جیسے کالے قانون کے خاتمے اور آئینی اور انسانی حقوق کے لئے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔
1969 میں ہی انہوں نے کراچی میں اپنی رہائش گاہ پر ایک کنونشن طلب کیا جس میں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام نے بھی نمایاں طور پر شرکت کی۔
گلگت بلتستان کے باسیوں کے لیے انسانی اور آئینی حقوق کے حصول اور نوجوانوں کی بیداری اور اپنی تحریک کا پیغام عوام تک پہنچانے کے لئے انہوں نے گلگت بلتستان کا پہلا متواتر اور باقاعدہ اخبار صدا‏ئے بلتستان کا اجرا کیا جس ایڈیٹر ان کے بھائی رضا انصاری تھے۔ انہی دوران انہوں نے گلگت بلتستان لداخ یونائیٹڈ فرنٹ کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس کے جنرل سیکرٹری سابق بیوروکریٹ آغا محمد علی شاہ تھے۔
1970 میں انہوں نے جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاء کے خلاف آواز احتجاج بلند کی اور گلگت بلتستان سے ایف سی آر کو ختم کرنے اور متنازعہ علاقے کو آئینی اور انسانی حقوق فراہم کرنے یا گلگت بلتستان کو آزادکشمیر کی حیثیت سے الگ الگ حیثیت فراہم کرنے کے لئے مظاہرین کے ساتھ کراچی میں سندھ گورنر ہاؤس کے سامنے احتجاج کیا۔ اس مظاہرے کے دوران انہیں گرفتار کرلیا گیا اور گورنر سندھ جنرل رحمان گل نے انہیں 17 سال قید کی سزا سنائی لیکن قومی یا بین الاقوامی سطح کے احتجاج اور دباؤ کی وجہ سے جنرل یحییٰ نے جلد ہی سزا ختم کردی۔ 1970 کی دہائی کا شہر کراچی نہ صرف سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا بلکہ بہتر زندگی اور تعلیم کی تلاش میں نقل مکانی کرنے والے ہزاروں گلگت بلتستانی باشندوں کے لیے امیدوں کا گھر بھی تھا لہذا انہوں نے کراچی میں اپنی جدوجہد جاری رکھی اور نہ صرف مقامی اور بین الاقوامی سطح پر پر متنازعہ گلگت بلتستان کے محروم عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو آشکار کیا بلکہ ہزاروں گلگت بلتستانیوں کو بھی صنعتی شہر کراچی میں آباد ہونے اور معقول زندگی گزارنے میں مدد فراہم کی اور کراچی میں ا ے بی سینیا لائنز ، کورنگی سیکٹر 2-1 / 2 ، عوامی کالونی ، کورنگی اور پہاڑ گنج جیسے اہم بلتی گلگتی بستیاں آباد کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا 1970 ہی کی دہائی میں وہ سیاسی اور فلاحی امور میں نہایت متحرک رہیں اور کئی بار اے بی سینیا میں بلتی اور نگر برادری کے مکانات کو بلڈوز کرنے کی حکومتی کوشش کو ملکہ بلتستانی نے ناکام بنایا۔
ملکہ بلتستانی نے نہ صرف بلتی اور گلگتیوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کی تھی بلکہ دیگر مزاحمتی اور مزدور تنظیموں سے بھی وابستہ رہیں ۔اسی جد و جہد کے سلسلے میں کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) یونین ، کلفٹن کنٹونمنٹ یونین کی چیئرپرسن اور شیعہ پولیٹیکل پارٹی کی سینئر نائب صدر بھی منتخب ہوئیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ایف سی آر کے خاتمے اور گلگت بلتستان میں سیاسی اصلاحات میں انہوں نے مدد فراہم کی۔1973-74 میں عراق اور ایران کے لئے زائرین کے لئے زرمبادلہ کی منظوری کے پیچھے بھی وہ ایک توانا آواز بنی رہیں۔
انہوں نے گلگت بلتستان قومی اتحاد تشکیل دیا جس نے ابھی تک متنازع گلگت بلتستان کے لئے انسانی اور آئینی حقوق کے لئے جدوجہد جاری رکھی ۔ 1985 میں اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کمیشن کو UNCHR میں گلگت بلتستان کی محرومیوں کے حوالے سے درخواست جمع کرائی اور اپنا احتجاج رکارڈ کرایا۔
ملکہ بلتستانی 50 سال سے زاید عرصہ گلگت بلتستان کے حقوق کے انفرادی اور اجتماعی سطح کوششیں کرتی رہیں۔ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والی تمام سیاسی اور طلبا تنظیموں کی غیر مشروط حمایت کرتی رہیں جن میں بلتستان اسٹوڈنٹس فیڈریشن (B.S.F) ، قراقرم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (K.S.O) ، گلگت اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور بہت سی دیگر تنظیمں شامل ہیں۔
گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کے حصول اور محرومیوں کے ازالے کے لئے آپ کی خدمات بے شمار ہیں جن کا احاطہ کرنا بھی مشکل ہے لیکن نہایت افسوس ہے کہ ان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہونے سے قبل ہی ہزاروں ارماں دل میں وہ آج ابدی نیند سو گئیں۔ اللہ ان کو بلند درجات عطا فرمائے۔
ملکہ بلتستانی نے اپنے صاحبزادے راشد سمیع کے دل میں گلگت بلتستان کی محبت اور آگ بھر دی تھی اسی لیے وہ بھی ہر فورم پر گلگت بلتستان کے آواز بلند کرتے رہتے ہیں اور نوجوان نسل کی بیداری کے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔ ہم اس عظیم خاتون کی وفات پر ان کی خدمت بھی تسلیت پیش کرتے ہیں۔

بشکریہ: علیم رحمانی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں