پاکستان اور ایران کے درمیان جاری یا متوقع دورے منسوخ مجاز ادارے اس پر جو بھی مناسب ردعمل ہوگا، دیں گے، قومی خود مختاری کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین بھی موجود ہیں، مرتضیٰ سولنگی

نگران وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات و پارلیمانی امور مرتضیٰ سولنگی کی ”نجی ٹی وی“ کے پروگرام میں گفتگو۔ پاکستان کی فضائی حدود کی بلا سبب خلاف ورزی پر ایران سے احتجاج کیا گیا، پاکستان نے ایران سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے، پاکستان میں تعینات ایران کے سفیر اس وقت اپنے ملک گئے ہوئے ہیں، انہیں کہا گیا ہے کہ وہ واپس تشریف نہ لائیں،
پاکستان اور ایران کے درمیان جاری یا متوقع دوروں کو بھی منسوخ کر دیا گیا ہے، اس معاملے کی تحقیقات ہو رہی ہیں، مجاز ادارے اس پر جو بھی مناسب ردعمل ہوگا، دیں گے، قومی خود مختاری کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین بھی موجود ہیں، ان قوانین کو سامنے رکھتے ہوئے جو کچھ ہم کر سکتے ہیں وہ کریں گے، 2018 کے انتخابات جس طریقے سے ہوئے وہ سب کے سامنے ہیں،
2018ءکے انتخابات پر یورپی یونین نے بھی تنقید کی اور ملک کے اندر سے بھی تنقید ہوئی،
صحافیوں کا اختیار اور حق ہے کہ انہیں کوئی چیز غلط نظر آئے تو سامنے لائیں ملکی قوانین کے تحت ہم شفاف طریقے سے انتخابات کرانے کی کوشش کر رہے ہیں، انتخابات کرانے کی بنیادی ذمہ داری الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہے، انتخابات کے انعقاد میں الیکشن کمیشن کی مالی، انتظامی یا سیکورٹی ضروریات پوری کر رہے ہیں، کسی سیاسی جماعت یا گروہ سے کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں کیا جا رہا،
پی ٹی آئی کے جو لوگ گرفتار ہوئے وہ مفرور تھے،
ان میں زیادہ تر ایسے لوگ ہیں جو 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہیں یا ان پر الزام ہے، کئی لوگوں کے کریمنل ٹرائلز مکمل ہو چکے ہیں، کچھ کے جاری ہیں، ان گرفتاریوں کا الیکشن سے کوئی تعلق نہیں، نگران حکومت ہو یا منتخب حکومت، قانون اپنا راستہ خود لیتا ہے، آجکل لیول پلینگ فیلڈ کی شکایت ہر ایک کر رہا ہے، پیپلز پارٹی کو پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو سندھ میں لیول پلینگ فیلڈ کی شکایات ہیں، پاکستان کے اندر سیاسی کلچر ہے کہ مظلوم نظر آئیں گے تو ہمدردی کا ووٹ ملے گا،
لیول پلینگ فیلڈ کے مطالبے کی تشریح ہر ایک کی نظر میں مختلف ہے، لیول پلینگ فیلڈ کے نام پر ہر کوئی چاہتا ہے کہ یہ صرف اس کے لئے ہو، ایسا ممکن نہیں، 2013ءسے 2024ءتک ایک دہائی سے زائد عرصہ کے دوران پی ٹی آئی کے منصفانہ انٹرا پارٹی انتخابات نہیں ہوئے، یہ وہ جماعت تھی جس نے سیاسی کلچر کو تبدیل کرنا تھا، عدالتی فیصلے سے ایک نظیر قائم ہوئی ہے کہ جماعتوں کے اندر انتخابات اور جمہوری رویئے ہونے چاہئیں،جو اپنی جماعت کے اندر جمہوریت کے لئے تیار نہ ہوں وہ ملک میں کیا جمہوریت لائیں گے؟ 2013ءکے عام انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے تھے جس پر دھاندلی کے الزامات لگے، پی ٹی آئی کا یہ معاملہ ایک دہائی سے پرانا ہے، دوسری سیاسی جماعتوں میں سے کوئی الیکشن کمیشن شکایت لے کر نہیں گیا، ایسا نہیں ہو سکتا کہ جماعت کے اندر جمہوریت نہ ہو اور وہ ملک کے اندر جمہوریت کی دعویدار بنے، انتخابات میں کچھ لوگوں کے تحفظات ہوتے ہیں، یہ غیر معمولی بات نہیں، کچھ لوگوں کا مفاد ہے کہ وہ بے یقینی پھیلائیں، 17 اگست 2023ءکو نگران کابینہ نے حلف اٹھایا، اس کے بعد مستقل مزاجی سے کہہ رہے ہیں کہ انتخابات الیکشن کمیشن کی دی گئی تاریخ پر ہوں گے، الیکشن کمیشن کی طرف سے تاریخ کے اعلان کے بعد مسلسل کہہ رہے ہیں کہ انتخابات جمعرات 8 فروری 2024ءکو ہوں گے،
اس حوالے سے کسی کے ذہن میں شکوک و شبہات نہیں ہونے چاہئیں، جس دن نگران کابینہ نے حلف اٹھایا اس دن انٹر بینک میں ڈالر کی قدر 296 روپے تھی اور اوپن مارکیٹ میں قیمت 350 تھی، یہ کہا جا رہا تھا کہ ڈالر کی قدر 500 سے اوپر جائے گی، آج ڈالر کی قدر 280 سے نیچے ہے،
پچھلی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ کیا، ہم نے آئی ایم ایف کے دیئے گئے ٹارگٹ سے زیادہ کام کیا، ہمارا وعدہ ہے کہ جس حالت میں ملک ملا تھا اس سے بہتر حالت میں ملک کے منتخب نمائندوں کو دے کر جائیں گے، آئندہ جو بھی حکومت منتخب ہوگی، اس کے لئے ملکی معیشت کو بہتر کرنا سب سے بڑا ہدف ہوگا، ملک کو سیاسی عدم استحکام، عدم برداشت، گورننس کی بہتری، خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات کے استحکام جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، پاکستان کے عوام پر اعتبار ہے کہ وہ ایسی قیادت منتخب کریں گے جو اس طرح کے چیلنجز کا سامنا کر سکے گی۔ تنقید پر کوئی پابندی نہیں، فیصلوں پر تنقید کی جا سکتی ہے، اداروں کی کرداری کشی، ان کے خلاف مہم چلانا آزادی اظہار رائے میں نہیں آتا، اس پر قانون کے مطابق کارروائی ہوگی،

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں