پی ٹی آئی سے بلا چھن گیا، سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لے لیا، عدالت نے کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کرلی

پی ٹی آئی سے بلا چھن گیا، سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لے لیا، عدالت نے کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کرلی
چیف جسٹس نے کیس کا مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا، عدالت نے کہاالیکشن کمشن نے قرار دیا تھا کہ انتخابات پارٹی آئین کے مطابق نہیں،الیکشن کمیشن کا فیصلہ پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیاگیا،الیکشن کمیشن کا فیصلہ پشاور ہائی کورٹ نےکالعدم قراردیدیا،پشاور ہائی کورٹ میں درخواست ناقابل سماعت تھی،ایک وقت میں دو ہائیکورٹس میں کیس نہیں چل سکتا، شفاف انتخابات کے شواہد پیش نہیں کیے گئے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ساتھ جانبداری کا مظاہرہ نہیں کیا، ملک جمہوریت کی بنیاد پر قائم ہوا، سیاسی جماعتیں پانچ سال میں انتخابات کرانے کی پابند ہیں، پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی پارٹی انتخابات میں کارکنوں کو کاغذات نامزدگی نہیں دیے گئے، پشاور ہائی کورٹ نے انتخابات کو درست قرار نہیں دیا نہ وہاں یہ استدعا کی گئی،
اس سے قبل سپریم کورٹ میں پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے جمہوریت ملک کیساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ہونی چاہیے،بنیادی سوال جمہوریت کا ہے،کم از کم اتنا تو نظر آئے کہ انتخابات ہوئے ہیں، اکبر بابر بانی رکن تھے وہ پسند نہیں تو الگ بات لیکن انکی رکنیت تو تھی،اکبر بابر کو الیکشن لڑنے دیتے سپورٹ نہ ہوتی تو وہ ہار جاتے، پی ٹی آئی کو اپنے ساڑھے آٹھ لاکھ ممبران پر اعتماد کیوں نہیں ہے؟ اگر انتخابات باقاعدہ طریقہ کار سے کرائے ہیں تو انتخابی نشان ہر صورت ملنا چاہیے، الیکشن کمیشن کو ایک کاغذ کا ٹکرا دکھا کر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ لو انتخابات کرا دیے، یہ دیکھنا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن مروجہ طریقہ کار سے ہوئے یا نہیں،الیکشن کمیشن کا ایک ہی دکھڑا ہے کہ پارٹی انتخابات کرا لو، یا تو کہ دیں کہ جمہوریت گھر میں نہیں چاہیے لیکن باہر چاہیے، ہم جمہوریت کیساتھ کھڑے ہیں چاہے وہ گھر کے اندر ہو یا باہر ہو،
دوران سماعت سابق وزیراعظم نواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کے کیس کا تذکرہ ہوا، چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکلاء کو مخاطب کرتے ہوئےکہا جب آپ اقتدار میں ہوتے ہیں تو تب اصول کیوں نظر انداز کردئیے جاتے ہیں،ہم یہ باتیں کرنا نہیں چاہتے تھے، 2018 میں ایک پارٹی صدارت کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے ختم کردیا گیا، کچھ لوگ اس فیصلے کا شکار ہوئے، آپ نے اس فیصلے کے نتیجے میں وہ مطلوبہ نتائج حاصل کیئے جو اپکو میسرنہیں تھے،
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا لگتا ہے پی ٹی آئی دستاویزات میں کافی کمزور ہے،جو بھی دستاویزات مانگتے ہیں وہ آپ کے پاس نہیں ہوتیں،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا پی ٹی آئی ارکان کو ہی لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ملی، جو شیڈول پی ٹی آئی نے دیا ہے وہ عملی طور پر ممکن نہیں لگ رہا، اگر قانون کے بجائے مرضی سے فیصلے کرنے ہیں تو میں تسلیم نہیں کرسکتا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو اس وقت نوٹس کیا جب وہ حکومت میں تھی، انتخابی نشان کیا ہوتا ہے اچھے سے معلوم ہے، مسلم لیگ نے ابھی ایسا ہی وقت دیکھا لیکن اس وقت حکومت میں کون تھا یہ بھی دیکھنا ہے، آج پی ٹی آئی کے مخالفین حکومت میں نہیں ہیں، دوران سماعت بیرسٹر گوہر کے گھر چھاپے سے متعلق معاملہ بھی سامنے آیا جس پر عدالت نے آئی جی اسلام آباد سے فوری رپورٹ طلب کرلی،عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

وقفہ کے بعد سماعت دوبارہ شروع

چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے
: آپ کو دلائل کیلئے کتنا وقت درکار ہوگا؟ چیف جسٹس کا سوال

کوشش کروں گا ایک گھنٹے میں دلائل مکمل کر لوں، علی ظفر
کاغذات نامزدگی جمع ہونا پہلا اور انتخابات کا مقام دوسرا مرحلہ تھا، علی ظفر

پی ٹی آئی چاہتی تھی کہ پولنگ اسلام آباد میں ہو، علی ظفر

شادی ہال سمیت کوئی بھی اپنی جگہ دینے کیلئے تیار نہیں تھا، علی ظفر

جہاں الیکشن ہوا کیا وہاں آپ کا دفتر ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی

جس گرائونڈ میں الیکشن ہوا وہ ہمارے دفتر کےساتھ ہے، علی ظفر

الیکشن کمیشن نے آئی جی پولیس کو پشاور میں سیکیورٹی فراہمی کیلئے خط لکھا، علی ظفر
الیکشن کمیشن نے پولنگ کا مقام اور دیگر تفصیلات مانگی تھیں کیا وہ بتائی گئیں؟ جسٹس محمد علی مظہر

الیکشن کمیشن کے اس خط کا جواب نہیں دیا لیکن پولیس کو آگاہ کر دیا تھا، علی ظفر

میڈیا کے ذریعے پولنگ کے مقام سے بھی آگاہی فراہمی کر دی تھی، علی ظفر

جو پینل سامنے آئے انکی تفصیلات بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں، علی ظفر

اکبر ایس بابر جب آئے تو وقت ختم ہوچکا تھا، علی ظفر

اکبر بابر نے آج تک اپنا پینل ہی نہیں دیا کہ وہ کہاں سے الیکشن لڑنا چاہتے تھے، علی ظفر

اکبر بابر الیکشن لڑنا چاہتے تو ہمیں اعتراض نہ ہوتا، وکیل تحریک انصاف علی ظفر
[: پارٹی آئین میں کہاں لکھا ہے الیکشن اکیلا شخص نہیں لڑ سکتا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

پارٹی آئین میں پینل انتخابات کا ذکر ہے، بیرسٹر علی ظفر

کوئی مدمقابل نہ ہو تو انتخاب بلامقابلہ تصور ہوگا، علی ظفر

پارٹی آئین میں کہیں بلامقابلہ انتخاب کا نہیں لکھا، چیف جسٹس

ووٹنگ ہوتی ہی تب ہے جب ایک سے زیادہ امیدوار ہوں، علی ظفر

اگر چیئرمین کے واحد امیدوار کو ہی لوگ پسند نہ کرتے ہوں تو کیا ہوگا، چیف جسٹ
: اگر آپ کو سینیٹ کے لیے ایک ووٹ نہ پڑے تو آپ سینیٹر نہیں بن سکتے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

میں بلا مقابلہ سینیٹر بنا تھا، علی ظفر

میں ٹیکنوکریٹ کی سیٹ پر سینیٹر بنا تھا، علی ظفر

اگر آپ کی بات دیکھی جائے تو میں بھی سینیٹر نہ بنتا، علی ظفر

عام انتخابات میں بھی کم از کم ووٹ کی حد ہوتی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اگر الیکشن نہیں ہوا لیکن بلا مقابلہ منتخب ہو گئے تو بھی ٹھیک ہے، علی ظفر

یہ تو ڈکٹیٹرشپ ہوئی نا پھر، چیف جسٹس

اگر آپ نے پینل بنا لیا اور گوہر خان نے بھی پینل بنا لیا اور آپس میں بانٹ لیے تو یہ جمہوریت تو نہ ہوئی، چیف جسٹس

پینل کا ذکر پارٹی آئین میں ہے، علی ظفر
اس طرح تو آپ آمریت کی جانب جا رہے ہیں، چیف جسٹس

چیئرمین، سیکرٹری جنرل سمیت سب لوگ ایسے ہی آگئے یہ تو سلیکشن ہوگئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

پی ٹی آئی نے الیکشن کیوں نہیں کرایا آخر مسئلہ کیا تھا، چیف جسٹس

علی ظفر نے مسلم لیگ ن کے بلامقابلہ انتخابات کا نوٹیفکیشن پیش کر دیا

ن لیگ میں بھی سب بلامقابلہ انتخابات ہوئے تھے، علی ظفر

بلامقابلہ انتخابات پارٹیوں میں ہوتے رہتے ہیں، چیف جسٹس

اس پر تبصرہ نہیں کرینگے، چیف جسٹس

اے این پی کے ضلعی صدور بھی بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے، علی ظفر

اے این پی کو آج جرمانہ کرکے پارٹی انتخابات جنرل الیکشن کے بعد کرانے کا کہا گیا ہے، علی ظفر

معاملہ فنڈنگ کا بھی 2014 سے پڑا ہے جو آپ چلنے نہیں دیتے، چیف جسٹس

ملک چلانے والے کون ہوتے ہیں عوام کو پتہ ہونا چاہیے، چیف جسٹس
: کل بیرسٹر گوہر وزیراعظم بن گئے تو کیا انہیں پارٹی کے لوگ جانتے ہونگے؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

آپ اختلافی نکتہ نظر بھی سنتے ہیں جو اچھی بات ہے، علی ظفر

آپ ہمیشہ پروفیشل انداز میں دلائل دیتے ہیں، چیف جسٹس

بغیر انتخاب بڑے لوگ آجائیں تو بڑے فیصلے بھی کرینگے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

آئی ایم ایف سے معاہدہ بھی ہوسکتا ہے کرنا پڑے، چیف جسٹس

لوگ اپنے منتخب افراد کو جانتے تو ہوں، چیف جسٹس
پی ٹی آئی انتخابات میں کسی نے ووٹ نہیں ڈالا، چیف جسٹس

مدمقابل کوئی نہیں تھا اس لئے ووٹنگ نہیں ہوئی تھی، علی ظفر

ایسے کرونا کے دوران بھی انتخابات ہوسکتے تھے، چیف جسٹس

اگر کوئی پینل نہ سامنے آتا تو ایسے ہی بلامقابلہ الیکشن ہوجاتے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

ماضی کو واپس کیا جا سکتا تو ضرور کر دیتے، علی ظفر کا جواب

الیکشن کمیشن نے 2021 میں انتخابی نشان واپس لینے کا خط لکھا تھا، چیف جسٹس

پرانے لوگوں کو ساتھ رکھیں تو انہیں تجربہ ہوتا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اکبر ایس بابر کی دستاویزات کے مطابق پی ٹی آئی کے بارہ بانی ارکان تھے، چیف جسٹس

پی ٹی آئی نے شاید بعد میں آئین بدل لیا، چیف جسٹس

یہ تو ثابت ہوگیا کہ اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کے بانی ممبر تھے، چیف جسٹس

اکبر بابر کو پارٹی سے نکالنے کی دستاویزات دکھا دیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

پی ٹی آئی پر کوئی باہر سے تو نہیں حملہ کر رہا نا، چیف جسٹس

چیئرمین بننے کا حق حامد خان کا زیادہ ہے یا بیرسٹر گوہر کا؟ چیف جسٹس کا سوال: الیکشن کمیشن کے پاس پارٹی انتخابات کے جائزے کا کوئی اختیار نہیں ہے، علی ظفر

کیا الیکشن کمیشن کو فنڈنگ کا جائزہ لینے کا بھی اختیار نہیں؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

فنڈنگ کا معاملہ مختلف ہے اس کی سکروٹنی الیکشن کمیشن کر سکتا ہے، علی ظفر

سکروٹنی کا اختیار الیکشن کمشین کو آئین نہیں قانون میں دیا گیا ہے، چیف جسٹس

اس نکتے پر آپ کیوں نہیں کہتے کہ سول کورٹ کا اختیار ہے، چیف جسٹس

فنڈنگ کے ذرائع کے حوالے سے الیکشن ایکٹ بالکل واضح ہے، علی ظفر
آپ کے چیئرمین کہتے ہیں کوئی بھی نشان مل جائے، جسٹس مسرت ہلالی

کوئی بھی انتخابی نشان دیدیں اس کیلئے بھی تیار ہیں، علی ظفر

پارٹی اسی صورت میں الیکشن لڑ سکتی ہے جب انتخابی نشان ہو، علی ظفر

پارٹی کے انتخابی نشان کے بغیر امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ سکتا ہے، علی ظفر

آپ اپنے لئے مسائل کیوں کھڑے کر رہے ہیں، چیف جسٹس

سب کو پتا ہوگا کہ کون کس پارٹی سے الیکشن لڑ رہا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

ہر امیدوار کا الگ نشان ہو تو مسئلہ ہوگا، علی ظفر

الیکشن کمیشن سے پوچھ لیں وہ بھی مجھ سے اتفاق کرینگے، علی ظفر
میرے بیٹوں اور بھتیجوں کو مارا جا رہا ہے، بیرسٹر گوہر کی علی ظفر سے گفتگو

جو بھی ہوا ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

پارٹی سربراہ کا تصور تو پی ٹی آئی کی وجہ سے ہی ختم ہوا ہے، چیف جسٹس

الیکشن کمیشن بار بار کہ رہا تھا الیکشن کرا لو، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

یہ نہیں ہو سکتا کہ الیکشن نہ ہو اور انتخابی نشان بھی مل جائے، چیف جسٹس

الیکشن کروایا لیکن وہ مانتے ہی نہیں، علی ظفر

اس وقت معاملہ حالیہ انتخابات کا ہے پرانا نہیں، چیف جسٹس

الیکشن ہوجائے تو سرٹیفکیٹ اور انتخابی نشان بعد کی باتیں ہیں، چیف جسٹس

انتخابی نشان پی ٹی آئی کا بنیادی حق ہے، علی ظفر
انتخابات لڑنے کا حق چھینا نہیں جا سکتا، تاحیات نااہلی کیس میں عدالت نے قرار دیا ہے، علی ظفر

تحریک انصاف کو عملی طور پر غیرفعال کر دیا گیا ہے، علی ظفر

لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کرتے ہیں، دوستانہ رویہ کسی کیساتھ رکھیں گے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

تحریک عدم اعتماد آ جائے تو اسمبلی تحلیل نہیں ہوسکتی، چیف جسٹس

انتخابات پر سب راضی ہوجاتے تو بھی اُس وقت ممکن نہیں تھے، چیف جسٹس
*دوران سماعت سابق وزیراعظم نواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کے کیس کا تذکرہ*

جب آپ اقتدار میں ہوتے ہیں تب اصول کیوں نظر انداز کردئیے جاتے ہیں،چیف جسٹس کا علی ظفر سے مکالمہ

ہم یہ باتیں کرنا نہیں چاہتے تھے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

2018 میں ایک پارٹی صدارت کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے ختم کردیا گیا، چیف جسٹس

کچھ لوگ اس فیصلے کا شکار ہوئے، چیف جسٹس

آپ نے اس فیصلے کے نتیجے میں وہ مطلوبہ نتائج حاصل کئے جو اپکو میسر نہیں تھے، چیف جسٹس

علی ظفر صاحب آپ اس ایوان کے رکن ہیں، آپ سمجھ گئے ہونگے، چیف جسٹس

کسی کو لیول پلئنگ فیلڈ کے نام پر ترجیح نہیں دی جا سکتی، چیف جسٹس

سپریم کورٹ دو کیسز میں قرار دے چکی ہے کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں ہے، علی ظفر

الیکشن کمیشن عدالت نہیں اس لئے ٹرائل کرنے کا اختیار نہیں رکھتا، علی ظفر

انٹرا پارٹی انتخابات پر اعتراضات پر سول عدالت میں دعویٰ ہو سکتا ہے، علی ظفر

الیکشن کمیشن عدالت نہیں لیکن آئینی ادارہ ہے، چیف جسٹس
انتخابی نشان بنیادی حق ہے، علی ظفر

آپ یہ سوچ رہے ہیں الیکشن کو چھوڑیں انتخابی نشان کی جنگ لڑ لیتے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

الیکشن کمیشن تو انٹرا پارٹی الیکشن کی بات کر رہا ہے، چیف جسٹس

یہ نہیں کہا جاسکتا الیکشن نہیں کرا سکتے انتخابی نشان نہیں لیا جا سکتا، چیف جسٹس

بنیادی بات انٹرا پارٹی الیکشن کی ہے، چیف جسٹس

کون ایک سیاسی جماعت کی بنیاد واپس لینا چاہتا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

الیکشن کمیشن، علی ظفر

سپریم کورٹ سیکشن 209 اور 105 کی تشریح کرے، علی ظفر

یہ شقیں آرٹیکل 17 سے متصادم ہیں، علی ظفر

الیکشن کمیشن کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ گزشتہ دس سال کی تقرریوں کا جائزہ لے، علی ظفر

ورچوئلی میری جماعت کو تحلیل کر دیا گیا، علی ظفر

جب ایک سیاسی جماعت کا سربراہ ہٹایا گیا اس وقت تو یہ بات نہیں کی گئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

یہ تاریخ کا پس منظر ہے، علی ظفر

جب طاقت ور ہوتے ہیں تو ایسی چیزوں کا خیال رکھتے، چیف جسٹس

تحریک انصاف نے تو خود پر خودکش حملہ کردیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

دھرنا فیصلے میں الیکشن کمیشن نے کہا قانون مصنوعی ہے، چیف جسٹس

دھرنا نظرثانی درخواستیں واپس لے لی گئیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

پہلے بھی آپ نے ہاؤس تحلیل کردیا ،چیف جسٹس

اس وقت اسمبلیاں تحلیل کرکے آئین کی خلاف ورزی کی گئی، چیف جسٹس

یہ جمہوریت ہے کوئی جیتا ہے کوئی ہارتا ہے، چیف جسٹس

اصول قائم رہتے ہیں، چیف جسٹس

وجیہہ الدین صاحب اچھے آدمی تھے آپ نے انھیں ہٹا دیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
بیرسٹر گوہر عدالت میں واپس آگئے

گوہر صاحب کیا پوزیشن ہے؟ چیف جسٹس کا سوال

حالات بہت سنگین ہیں، بیرسٹر گوہر

ابھی معاملے کو طے کریں، چیف جسٹس کی ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت

چار ڈالوں میں لوگ میرے گھر آئے، بیرسٹر گوہر

کسی پر اعتماد نہیں ہے عدالت کو بتانا چاہتا ہوں کہ کیا ہوا، بیرسٹر گوہر

سیکرٹری داخلہ اور آئی جی سے بات ہوئی ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل

سیکرٹری داخلہ اور آئی جی معلوم کر رہے ہیں کہ کیا ہوا ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل

چیف جسٹس نے بیرسٹر گوہر کو بات کرنے سے روک دیا

پہلے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو بتائیں اگر بات نہ سنی جائے تو عدالت کو آگاہ کریں، چیف جسٹس

اب تو حد سے بھی تجاوز ہوگیا ہے، بیرسٹر گوہر

ہم ایس ایچ او تو نہیں ہیں، چیف جسٹس
یہاں بات نہیں کروں گا تو کہاں کروں گا، بیرسٹر گوہر

آپ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے ساتھ جائیں، چیف جسٹس

ہم مقدمہ سن رہے ہیں، چیف جسٹس

اگر یہ مسئلہ حل نہیں کرتے تو ہم بیٹھیں ہیں، چیف جسٹس

فی الحال ہم توجہ بانٹنا نہیں چاہتے، چیف جسٹس
معاملہ دیکھا جا رہا ہے جیسے اطلاع ملتی ہے آگاہ کروں گا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل

یہ مسئلہ حل ہونا چاہیے، چیف جسٹس کی ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مسئلہ حل کرنے کی یقین دہانی کروا دی
لاہور ہائی کورٹ میں درخواست پارٹی کی جانب سے نہیں دی گئی، علی ظفر

درخواست گزار پی ٹی آئی کا ضلعی صدر ہے، جسٹس محمد علی مظہر

ریکارڈ کے مطابق ہائی کورٹ نے لکھا کہ معاملہ پشاور ہائی کورٹ میں زیرالتواء ہے،علی ظفر

دوبارہ انتخابات کا الیکشن کمیشن کا حکم چیلنج کیا لیکن اس پر عمل بھی کر دیا، علی ظفر

لاہور ہائی کورٹ میں فل بنچ بنا ہوا تھا اس لئے وہاں سے رجوع کیا تھا، علی ظفر

دوسرا الیکشن پشاور میں ہوا وہ بھی الیکشن کمیشن نے نہیں مانا، علی ظفر

لاہور میں معاملہ چل رہا تھا تو پشاور کیوں گئے؟ چیف جسٹس

لاہور ہائی کورٹ میں ابھی تک درخواست زیرالتواء ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

کل آپ کو غلط معلومات دی گئیں کہ میں نے التواء مانگا تھا، علی ظفر

میں پہنچا تو بنچ پہلے ہی تحلیل ہوچکا تھا، علی ظفر

بنچ لگتا تو درخواست غیرموثر ہونے پر واپس لے لیتا، علی ظفر

اگر دو ہائی کورٹس بیک وقت کیس سننے کیلئے بااختیار ہوں تو کسی سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے، علی ظفر

ایک ہائیکورٹ میں مقدمہ زیرالتواء ہو تو دوسری کو فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے، علی ظفر

ایسا نہیں ہونے دینگے کہ ایک جگہ سے سٹے نہ ملے تو دوسری ہائیکورٹ چلے جائو، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اگر کے پی کا صوبائی الیکشن ٹھیک نہ ہوتا تو پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرنا بنتا تھا، چیف جسٹس

بیرسٹر گوہرالیکشن کمیشن کے حکم سے متاثرہ فریق ہیں، علی ظفر

بیرسٹر گوہر کو پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ علی ظفر
نام نہاد شکایت کنندگان بھی لاہور ہائیکورٹ میں فریق نہیں تھے، علی ظفر

کیا لاہور ہاہیکورٹ کے پاس دائرہ اختیار نہیں تھا؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

کوئی زبردستی نہیں کر سکتا کہ کس عدالت سے رجوع کرنا ہے کس سے نہیں، علی ظفر

اگر لاہور ہائیکورٹ پی ٹی آئی کا سابقہ الیکشن درست قرار دیدے تو کیا ہوگا؟ چیف جسٹس

بانی پی ٹی آئی دوبارہ چیئرمین بن جائیں تو ہم سے زیادہ خوش کوئی نہیں ہوگا، علی ظفر

الیکشن کمیشن نے بانی پی ٹی آئی کو ہٹانے کا نوٹس جاری کیا تھا اس وجہ سے چئیرمین تبدیل کیا، علی ظفر

کیا الیکشن کمیشن چیئرمین کو ہٹا سکتا ہے؟ چیف جسٹس

الیکشن کمیشن کا نوٹس چیلنج کر رکھا ہے، علی ظفر

بانی پی ٹی آئی ازخود بحال ہوجائیں گے یا چیئرمین کا دوبارہ الیکشن ہوگا؟ جسٹس مسرت ہلالی

بیرسٹر گوہر کے مستعفی ہونے پر چیئرمین کا الیکشن دوبارہ ہوگا، علی ظفر

الیکشن کمیشن نے 175 سیاسی جماعتوں میں سے کسی اور کے پارٹی انتخابات کالعدم نہیں کیے، علی ظفر

میں نے اٹارنی جنرل سے بات کی ہے وہ آئی جی اور دیگر لوگوں کو فون کر رہے ہیں ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان

بیرسٹر گوہر نے گھر کی موبائل فوٹیجز ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو دیکھائیں

انہوں نے گھر پر چھاپا مارا ہے کمپیوٹر وغیرہ سب کچھ اٹھا کر لے گئے ہیں ، بیرسٹر گوہر علی خان

ایڈیشنل اٹارنی جنرل دوبارہ اٹارنی جنرل آفس کی طرف روانہ

ہمایوں اختر کیس میں الیکشن کمیشن نے قرار دیا پارٹی انتخابات کیس میں مداخلت نہیں کر سکتے، علی ظفر

جس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں وہ 2009 کا ہے، جسٹس محمد علی مظہر

کیا اس وقت اور اب کے قانون میں فرق نہیں ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر

قانون میں کوئی فرق نہیں آیا، وکیل پی ٹی آئی علی ظفر

جس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں وہ سیاسی جماعتوں کے 2002 کے آرڈیننس کے تحت ہے، جسٹس محمد علی مظہر

نئے قانون میں بھی دفعات وہی ہیں، علی ظفر

ق لیگ میں بھی پارٹی انتخابات درست نہ ہونے کا سوال تھا، علی ظف
: چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو چیمبر میں بلا لیا

اسد عمر پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل تھے، علی ظفر

اسد عمر کو اٹھا لیا گیا جس کے بعد انہوں نے پارٹی عہدہ چھوڑ دیا، علی ظفر

اسد عمر کے مستعفی ہونے کے بعد ڈپٹی سیکرٹری جنرل عمر ایوب کو سیکرٹری جنرل بنایا گیا، علی ظفر

اسد عمر نے پہلے عہدہ بعد میں پارٹی چھوڑی، علی ظفر

اسد عمر نے نو مئی واقعات کی وجہ سے پارٹی چھوڑی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

سارے مسئلے آپ کی پارٹی کےساتھ کیوں ہو رہے ہیں؟ چیف جسٹس
ایک بندے کو کاغذات نامزدگی نہ ملنے پر پارٹی کو الیکشن سے باہر نہیں کیا جا سکتا، علی ظفر

الیکشن کمیشن نے ٹرائل کرنا ہے تو ہمیں شواہد پیش کرنے کا موقع بھی دیتا، علی ظفر

کسی اور جماعت کیساتھ یہ رویہ نہیں جو پی ٹی آئی کے ساتھ ہے، علی ظفر

اگر الیکشن نہ کراتے تو الیکشن کمیشن کا پوچھنا بنتا تھا، علی ظفر

الیکشن کمیشن کو ٹربیونل بننے کا اختیار کہاں سے مل گیا، علی ظفر
پارٹی انتخابات میں مسئلہ ہو تو کہاں رجوع کیا جا سکتا ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی

الیکشن کمیشن کا اپنا فیصلہ ہے کہ سول کورٹ سے رجوع کیا جائے، علی ظفر

الیکشن کمیشن نے پارٹی انتخابات نہیں الیکشن کمشنر کی تعیناتی کو غلط قرار دیا ہے، علی ظفر

الیکشن کمیشن نے عہدیداران کے بلامقابلہ انتخاب پر اعتراض نہیں کیا، علی ظفر

پشاور ہائی کورٹ میں تحریک انصاف نے انتخابات درست قرار دینے کی استدعا نہیں کی تھی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

الیکشن درست ہو تو نشان کا مسئلہ خود حل ہو جائے گا، چیف جسٹس

الیکشن کمیشن کا حکم کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی، علی ظفر

الیکشن کمیشن کا حکم ہی کالعدم ہوگیا تو سب کچھ ختم، علی ظفر

الیکشن کمیشن کے پاس انتخابی نشان واپس لینے کے علاوہ کوئی ہتھیار نہیں ہے، چیف جسٹس

آپ سوچ کر جواب دینا چاہیں تو مخدوم علی خان کے بعد دوبارہ سن لینگے، چیف جسٹس

سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ

مجھے ابھی دوسرے معاملے کو بھی دیکھنا ہے، چیف جسٹس
ہم نے آئی جی کو بھیجا تھا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

یہ تو اچھی بات ہے،وکیل پی ٹی آئی علی ظفر

کیا آئی جی اسلام آباد عدالت میں موجود ہیں،چیف جسٹس کا استفسار

آئی جی اسلام آباد آئے تھے شاید باہر گئے ہیں آجائیں گے،وکیل علی ظفر
بیرسٹر گوہر کے گھر مبینہ چھاپے کا معاملہ ،سپریم کورٹ نے نوٹس لے لیا

جو واقعہ ہوا بہت سنجیدہ معاملہ ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

گوہر صاحب آپ درخواست دیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

آئی جی اسلام آباد روسٹرم پر آگئے

مفرور لوگوں کی تلاش کیلئے پولیس گئی ہے، آئی جی اسلام آباد

تھانہ کوہسار نے چھاپہ مارا میں مکمل تفصیل فراہم کرونگا، آئی جی اسلام آباد

ہمیں واقعہ کی رپورٹ دیں، چیف جسٹس پاکستان

آئی جی گوہر صاحب کے گھر جائیں اور معلومات دیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

ہر شہری کا تحفظ ہونا چاہیے، چیف جسٹس

آئی جی صاحب ترجیحی بنیادوں پر گوہر کے گھر جائیں، چیف جسٹس پاکستان کا آئی جی اسلام آباد سے مکالمہ

کیا اتنا کافی ہے، چیف جسٹس پاکستان کا بیرسٹر گوہر سے مکالم آئی جی اسلام آباد عدالت میں پیش

عدالت میں بہت سنجیدہ شکایت کی گئی ہے، چیف جسٹس

کیا آپ کو معلوم ہے کہ کیا ہوا ہے؟ چیف جسٹس

پولیس بیرسٹر گوہرکے گھر کیوں گئی تھی؟ چیف جسٹس

اشتہاری کی موجودگی کی اطلاع پر چھاپہ مارا گیا تھا، آئی جی پولیس

کس اشتہاری کیلئے چھاپا مارا گیا تھا؟ چیف جسٹس

خود بیرسٹر گوہر کے گھر جائیں اور جس کیخلاف بھی کارروائی بنتی ہے کریں، چیف جسٹس

عدالت نے شکایت کا ازالہ نہ کرنے پر بیرسٹر گوہر کو تحریری درخواست دینے کی بھی ہدایت کر دی

عدالت نے آئی جی پولیس سے فوری طور پر رپورٹ بھی طلب کر لی
: آپ ذاتی طور پر جائیے
ہر شہری کو مکمل تحفظ حاصل ہے ،چیف جسٹس کی آئی جی اسلام آباد کو ہدایت

انکی اہلیہ اور جس سے معلومات لینی ہو لے کر تحریری رپورٹ دیں، چیف جسٹس

اگر بیر سٹر گوہر مطمئن نہ ہوں تو آگاہ کیجئے،چیف جسٹس

بیرسٹر گوہر نے عدالتی حکم پر اعتماد کا اظہار کیا

تاثر ہے کسی کو کوئی کام نہیں کرنے دیا جاتا، حامد خان

ہمارے کارکنان کو حراساں کئے جا رہا تھا،حامد خان

حراساں کرنے کی وجہ سے ہی پشاور میں انتخابات کروائے، حامد خان

حراساں کیا جارہا تو پھر آپ سیکیورٹی کو خط نہ لکھتے،
چیف جسٹس

آپ چپکے سے انتخابات کروا دیتے، چیف جسٹس
سوال یہ ہے کہ لاہور میں کیس زیر سماعت تھا تو پشاور ہائیکورٹ کیوں گئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

دونوں کیسز الگ ہیں، حامد خان

الیکشن کمیشن ادارہ ہے متاثرہ فریق کیسے ہوسکتا ہے، حامد خان

الیکشن کمیشن کی اپیل ناقابل سماعت ہے، حامد خان

کیا آرٹیکل 185 میں اپیل دائر کرنے کیلئے متاثرہ فریق کا ذکر موجود ہے؟ چیف جسٹس

اپیل کیلئے متاثرہ فریق کا لفظ موجود نہیں ہے، حامد خان

اگر ہائیکورٹ الیکشن کمیشن کو تحلیل کردے تو کیا ادارہ اپیل نہیں کرسکے گا؟ چیف جسٹس

کمیشن کے کسی رکن کو ہٹایا جائے تو کیا کمیشن اپیل نہیں کر سکتا؟ چیف جسٹس

معاملہ اگر کسی رکن کی تعیناتی غیرقانونی ہونے کا ہو تو الگ بات ہے، چیف جسٹس

معلومات تک رسائی کے متعلق فیصلے میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ عدالت درخواست گزار نہیں ہوسکتی، حامد خان
اختیار سماعت کو کھینچنے کیلئے رجوع کیا جاتا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

الیکشن کمیشن اپیل دائر نہیں کر سکتا یہ بہت عجیب دلیل ہے، چیف جسٹس

ہمیں پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن کا بہت احترام ہے، چیف جسٹس

آپ کیلئے اچھی خبر ہے،ہمیں ابھی بتایا گیا ہے، چیف جسٹس

الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان الاٹمنٹ کے وقت میں سات بجے تک اضافہ کردیا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

میری درخواست ہے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کریں، حامد خان

آپ دلائل ختم کریں ہم فیصلہ کریں گے، چیف جسٹس
ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ ہائیکورٹ میں درخواست دائر نہیں کر سکتی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

الیکشن کمیشن کیخلاف کیسز ہوسکتے ہیں تو وہ اپنا دفاع کیوں نہیں کر سکتے؟ چیف جسٹس

اگر ہائی کورٹ خود اپیل کرے تو بات مختلف ہوگی، چیف جسٹس

الیکشن کمشین نے انتخابی نشان جمع کرانے کیلئے سات بجے تک کا وقت دیا ہے، چیف جسٹس

یہ پتہ نہیں آپ کیلئے اچھی خبر ہے یا بری، چیف جسٹس

اس حوالے سے استدعا دلائل کے آخر میں کروں گا، حامد خان

آپ اپنے دلائل جلدی مکمل کریں، چیف جسٹس کی حامد خان کو ہدایت الیکشن کمیشن کے پاس بے پناہ اختیارات ہیں، چیف جسٹس

الیکشن کمیشن کے بااختیار ہونے میں کوئی دو رائے نہیں، حامد خان

اختیارات مختلف حالات کے مطابق دیے گئے ہیں، حامد خان

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کےساتھ دوہرا معیار اپنایا، حامد خان

الیکشن کمیشن نے کسی دوسری جماعت کے انتخابات کی اس طرح سکروٹنی نہیں کی، حامد خان

جن کی سکروٹنی نہیں ہوئی انہیں فریق بناتے اور الگ الگ کیس کرتے، چیف جسٹس

درخواست گزاروں نےخود دستاویزات لگائی ہیں دو جماعتوں کی جہاں بلامقابلہ انتخاب ہوا، حامد خان

کیا ان جماعتوں کیخلاف کوئی شکایت آئی یا کمیشن سوموٹو لیتا؟ چیف جسٹس

شکایت کنندہ تو ہمارے ملک میں مل ہی جاتے ہیں، حامد خان

جسٹس وجیہ الدین نے بھی انتخابات کرائے تھے بہت شور پڑ گیا تھا، چیف جسٹس

انٹراپارٹی انتخابات اندرونی معاملہ ہے الیکشن کمیشن جائزہ نہیں لے سکتا، حامد خان

پشاور ہائیکورٹ میں استدعا تھی کہ الیکشن کمیشن انٹراپارٹی انتخابات میں مداخلت نہیں کر سکتا، حامد خان

چیف جسٹس نے حامد خان کو دلائل جلد مکمل کرنے کی ہدایت کر دی

الیکشن لڑنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے، حامد خان

چودہ درخواست گزار بھی یہی حق مانگ رہے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

الیکشن کمیشن کیسے پارٹی کے اندرونی معاملے میں مداخلت کر سکتا ہے، حامد خان

الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے انتخابی نشان کو ٹارگٹ کر رہا ہے، حامد خان

الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو کیوں انتخابات سے باہر رکھنا چاہتا ہے، حامد خان

الیکشن کمیشن کروڑوں ووٹرز کو حق سے کیسے محروم کر سکتا ہے، حامد خان
: الیکشن کمیشن میں درخواست گزار پارٹی ممبر ہی نہیں ہیں تو الیکشن کیسے لڑتے، حامد خان

آپ نے خود مانا تھا کہ اکبر بابر بانی رکن ہیں، حامد خان

بانی رکن اپنی پارٹی کےخلاف کیسے عدالتوں میں جا چکا ہے، حامد خان

اکبر بابر کو شوکاز جاری کیا گیا تھا، حامد خان

شوکاز نوٹس دکھا دیں، چیف جسٹس

اکبر بابر کا پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ عدالت میں چیلنج نہیں ہے، حامد خان

تین دن پہلے ایک بانی ممبر ایم کیو ایم میں شامل ہوا ہے، حامد خان

کیا بانی ممبر ہمیشہ ہی رکن رہ سکتا ہے؟ حامد خان

عدالت میں کیس انتخابی نشان کا ہے اندرونی طریقہ کار کا نہیں، چیف جسٹس
پارٹی اگر کسی کو ممبر نہ مانے تو اس کا کام ہے خود کو عدالت میں رکن ثابت کرے، حامد خان

حامد خان صاحب وقت زیادہ لگے گا تو نتائج کیلئے بھی تیار رہیں، چیف جسٹس

کوشش ہے کہ جلدی بات مکمل کر لوں، حامد خان

مقبول سیاسی جماعت کو الیکشن سے باہر کرنے سے ووٹرز کے حقوق متاثر ہونگے، حامد خان

آئین قانونی اور سیاسی دستاویز ہے، حامد خان

پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے دلائل مکمل کر لئے
: پی ٹی آئی انتخابات کیخلاف درخواست گزار یوسف علی اور دیگر عدالت میں پیش

بچپن سے تحریک انصاف میں ہوں، درخواست گزار

قطر میں ہوتے ہوئے پی ٹی آئی 2006 میں جوائن کی، درخواست گزار

اسلام آباد کا کوآرڈینیٹر 2009 میں بنا تھا، درخواست گزار

الیکشن لڑنا چاہتا تھا لیکن طریقہ کار کا علم ہی نہیں تھا، درخواست گزار

پی ٹی آئی کو آپ سے کیا مسئلہ ہے؟ چیف جسٹس

یہ پی ٹی آئی سے پوچھیں میں تو جمہوری آدمی ہوں،درخواست گزار
پی ٹی آئی کیخلاف ایک اور درخواست گزار نورین فاروق عدالت میں پیش

1999 میں پی ٹی آئی کا حصہ بنی اور خواتین ونگ کی مقامی صدر تھی، نورین فاروق

نعیم الحق کی سیکرٹری کے طور پر بھی فرائض انجام دیتی رہی ہوں، نورین فاروق

کسی اور جماعت کا حصہ نہیں بنی، نورین فاروق

الیکشن لڑنا چاہتی تھی لیکن موقع نہیں ملا، نورین فاروق

چاہتی تھی ہائی لائٹ ہو جائوں، نورین فاروق

عمران خان مجھے پارٹی کا اثاثہ اور انسائیکلوپیڈیا کہتے تھے، نورین فاروق

بانی رکن بلال اظہر رانا عدالت میں پیش

بانی ارکان میں آپ کا نام نہیں ہے، چیف جسٹس

پچیس اپریل 1996 سے تحریک انصاف کا حصہ ہوں، بلال اظہر رانا

میرے پاس پارٹی کا کوئی عہدہ نہیں ہے، بلال اظہر رانا
: اکبر بابر کے وکیل احمد حسن نے دلائل کا آغاز کر دیا

پی ٹی آئی کا 1999 کا آئین ریکارڈ پر موجود ہے، احمد حسن

پی ٹی آئی آئین ساز کمیٹی کے کئی ارکان غیرفعال ہیں یا چھوڑ چکے ہیں، احمد حسن

آئین ساز کمیٹی کے چیئرمین حامد خان صرف ابھی موجود ہیں، احمد حسن

بانی ارکان میں عارف علوی اور اکبر بابر بھی شامل ہیں، احمد حسن
ہم نے پی ٹی آئی کے عبوری آئین کی بھی نقل فراہم کی ہے، وکیل اکبر ایس بابر

آئین سازی کے عمل میں حامد خان کیساتھ مل کر کام کرتے رہے ہیں، وکیل اکبر ایس بابر

سیکرٹری الیکشن کمیشن کو انتخابی نشان بلے کیلئے درخواست اکبر ایس بابر کے زریعے دی گئی، وکیل

دو ہزار دو سے پہلے پی ٹی آئی کا کیا انتخابی نشان تھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

بانی پی ٹی آئی نے ایک شوکاز نوٹس حامد خان کو بھی جاری کیا، وکیل اکبر ایس بابر

شوکاز نوٹس سن دو ہزار انیس کو دیا گیا تھا، وکیل اکبر ایس بابر

حامد خان صاحب نے ایک جواب جمع کرایا تھا، وکیل اکبر ایس بابر

بطور ممبر الیکشن کمیشن اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے مجھے تسلیم کیا، وکیل اکبر ایس بابر
پی ٹی آئی کے رکن محمد مزمل عدالت میں پیش

2016 سے پی ٹی ائی کا رکن اور ٹوبہ ٹیک سنگھ سے وائس پریذیڈنٹ تھا، محمد مزمل

انٹرا پارٹی انتخابات میں حصہ لینے پی ٹی آئی سیکریٹریٹ گیا تو کہا گیا خان صاحب نے جن کو کہہ دیا وہی لڑیں گے، محمد مزمل

خان صاحب سے آپ کی کوئی ناراضگی تھی؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

سچ بولو تو خان صاحب ناراض ہو جاتے ہیں، محمد مزمل
کیا پشاور ہائیکورٹ کو آگاہ کیا گیا تھا کہ معاملہ لاہور میں بھی زیرالتواء ہے؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

بظاہر ریکارڈ پر ایسی کوئی دستاویز نہیں ہے، احمد حسن

عام انتخابات میں کاغذات جمع کراتے وقت ہی پارٹی سے تعلق لکھنا ہوتا ہے، احمد حسن

اکبر بابر کے وکیل احمد حسن نے دلائل مکملبلے سے پہلے پی ٹی آئی کا نشان چراغ ہوتا تھا، وکیل اکبر ایس بابر

مخدوم علی خان نے جواب الجواب کا آغاز کر دیا

پی ٹی آئی کہتی ہے الیکشن کمیشن دوہرا معیار اپنا رہا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

الیکشن کمیشن نے کل 13 سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن ختم کی ہے، مخدوم علی خان

اے این پی کو شاید لاء اینڈ آرڈر کی وجہ سے دس مئی تک وقت دیا ہے، جسٹس مسرت ہلالی

اے این پی کے پانچ سال ابھی پورے نہیں ہوئے تھے، مخدوم علی خان

اے این پی کو مہلت پانچ سال کی مدت کو مدنظر رکھتے ہوئے دی گئی ہے، وکیل الیکشن کمیشن: عوامی نیشنل پارٹی کو وقت دیا گیا الیکشن بعد میں کرا لے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

عوامی نیشنل پارٹی کے اگلے انٹرا پارٹی انتخابات میں ابھی پانچ سال مکمل نہیں ہوئے، وکیل الیکشن کمیشن

اے این پی کو مہلت پانچ سال کی مدت میں رہتے ہوئے دی گئی ہے، وکیل الیکشن کمیشن
ہوسکتا ہے پشاور ہائی کورٹ کو لگا ہو کہ لاہور میں ایک ہی درخواست دائر ہوئی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

پشاور ہائی کورٹ کو تین درخواستیں زیرالتواء ہونے کا علم نہیں ہوگا، چیف جسٹس

کیا پی ٹی آئی کو 2021 میں شوکاز نوٹس کسی شکایت پر دیا گیا تھا؟ چیف جسٹس

الیکشن کمیشن کا 2021 والا شوکاز کسی شکایت پر نہیں تھا، مخدوم علی خان

ہم سمجھ رہے تھے آپ جمہوریت کے حوالے سے ہمیں کچھ بتائیں گے، چیف جسٹس
اگر لاہور ہائی کورٹ نے درخواست منظور کر لی تو پھر تو پرانے امیدوار جیت جائیں گے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کیوں نہیں ہوتے رہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

میں قیاس آرائیوں پر بات نہیں کرنا چاہتا، وکیل الیکشن کمیشن
: پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو اختیار دینے والا قانون کالعدم قرار نہیں دیا، مخدوم علی خان

قانون کو غیرآئینی قرار دیکر کالعدم کیا جا سکتا ہے برا نہیں کہا جا سکتا، مخدوم علی خان

پشاور ہائی کورٹ نے قانون کو عملی طور پر غیرموثر کر دیا ہے، مخدوم علی خان

مخدوم علی خان کے دلائل مکمل

فیصلہ محفو
پی ٹی آئی نے 2022 میں انٹرا پارٹی الیکشن کرائے ، عدالت

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو دوسری بار انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا کہا، عدالت

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو نوٹس جاری کیا، عدالت

پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن دسمبر میں کرائے، عدالت الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کو کہا پی ٹی آئی نے الیکشن درست نہیں کرائے، عدالت

الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی الیکشن درست نہ کرانے کا کہ کر انتخابی نشان واپس لیا، عدالت

الیکشن کمیشن نے کہا پی ٹی آئی فیئر الیکشن کرانے میں ناکام رہے ، عدالت

پی ٹی آئی نے دوبارہ الیکشن کراکے بھی اپنی درخواست لاہور ہائیکورٹ سے نہیں واپس لی، عدالت

14 ارکان نے الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف درخواستیں دیں، عدالت

پشاور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی کی درخواست ناقابل سماعت تھی، عدالت

الیکشن کمیشن کا فیصلہ پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا ، عدالت

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے خلاف جانبداری نہیں کی، عدالت

سیاسی جماعتیں انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کی پابند ہیں، عدالت

پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار
عدالت نےالیکشن کمیشن کی اپیل منظور کرلی

پی ٹی آئی سے بلا واپس لینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ بحال مختصر فیصلہ بھی کچھ لمبا ہے، چیف جسٹس

پی ٹی آئی کے آٹھ جون کے انتخابات الیکشن کمیشن نے کالعدم قرار دیے تھے، فیصلہ

پی ٹی آئی کو دوبارہ پارٹی الیکشن کا حکم دیا گیا، فیصلہ

پی ٹی آئی نے فیصلہ لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا، فیصلہ

دوبارہ پارٹی انتخابات سے متعلق شکایات ملنے پر انتخابی نشان واپس لیا گیا، فیصلہ

لاہور ہائی کورٹ میں درخواستیں زیرالتواء ہوتے ہوئے دوبارہ انتخابات کرائے گئے، فیصلہ

الیکشن کمشن نے قرار دیا تھا کہ انتخابات پارٹی آئین کے مطابق نہیں، فیصلہ

الیکشن کمیشن کا فیصلہ پشاور ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دیدیا، فیصلہ

الیکشن کمیشن کا فیصلہ پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا پشاور ہائی کورٹ میں درخواست ناقابل سماعت تھی، سپریم کورٹ

ایک وقت میں دو ہائی کورٹس میں کیس نہیں چل سکتا، فیصلہ

شفاف انتخابات کے شواہد پیش نہیں کیے گئے، سپریم کورٹ

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ساتھ جانبداری کا مظاہرہ نہیں کیا، فیصلہ

ملک جمہوریت کی بنیاد پر قائم ہوا، سپریم کورٹ

سیاسی جماعتیں پانچ سال میں انتخابات کرانے کی پابند ہیں، فیصلہ

پارٹی انتخابات میں کارکنوں کو کاغذات نامزدگی نہیں دیے گئے، فیصلہ

پشاور ہائی کورٹ نے انتخابات کو درست قرار نہیں دیا نہ وہاں یہ استدعا کی گئی، فیصلہ

الیکشن کمیشن کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری

چیف جسٹس نے پانچ صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا

سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی انتخابات یقینی بناناالیکشن کمیشن کی آئینی زمہ داری ہے، عدالت

سیاسی جماعت کے ہر رکن کو انٹرا پارٹی الیکشن میں شمولیت کا یکساں موقع ملنا چاہیے ، عدالت

پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے نہ اراکین کو مطلع کیا گیا نہ ہی انتخابات کے انعقاد کا مقام بتایا گیا ، عدالت

ہائیکورٹ ججز کا الیکشن ایکٹ کا سیکشن 215 شق 5 کالعدم قرار نا دے کر برا کہنا غیر ضروری تھا، عدالت

پشاور ہائیکورٹ اور نہ لاہور ہائیکورٹ کے سامنے الیکشن ایکٹ کے سیکشن 215 کی شق 5 چیلنج کی گئی ، عدالت

پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد سے متعلق کوئی ڈیکلریشن ہائیکورٹ سے نہیں مانگا، عدالت

ہائیکورٹ نے یہ ڈیکلریشن بھی نہیں دیا کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات کرائے، عدالت

پشاور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کی درخواست ناقابل سماعت تھی، عدالت

پشاور ہائی کورٹ نے انتخابات کو درست قرار نہیں دیا نہ وہاں یہ استدعا کی گئی، فیصلہ

ایک وقت میں دو ہائی کورٹس میں کیس نہیں چل سکتا، عدالت

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ساتھ جانبداری کا مظاہرہ نہیں کیا، فیصلہ

ملک جمہوریت کی بنیاد پر قائم ہوا، عدالت

سیاسی جماعتیں پانچ سال میں انتخابات کرانے کی پابند ہیں، عدالت

پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار، الیکشن کمیشن کی درخواست منظور

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں