آج منیر نیازی کا یومِ ولادت ہے۔
وہ 9 اپریل 1928 کو مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے معروف گاؤں خان پور میں پیدا ہوۓ ۔ لڑکپن بہاولپور میں گزرا جہاں ان کے والد ریاست کے ملازم تھے۔ منیر نیازی شاید ایس ای کالج بہاولپور کے طالب علم بھی رہے۔والد نے بہاول پور میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوۓ ۔ جس کے بعد منیر نیازی خاندان کے ساتھہ منٹگمری چلے آۓ اور اس کے بعد لاہور، صحافت اور فلم سے وابستہ رہے ۔
26 دسمبر 2006ءکولاہور میں وفات پائی۔
ان کی اردو اور پنجابی شاعری کے مجموعےاس بے وفا کا شہر‘ تیز ہوا اور تنہا پھول‘ جنگل میں دھنک‘ دشمنوں کے درمیان شام‘ سفید دن کی ہوا‘آغاز زمستاں میں دوبارہ، سیاہ شب کا سمندر‘ ماہ منیر‘ چھہ رنگین دروازے‘ ساعت سیار، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی، چار چپ چیزاں‘ رستہ دسن والے تارے اور سفردی رات کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔
آخری مجموعہ “ایک مسلسل” 2003ء میں برادرم اظہر غوری نے چھاپا۔ دوست پبلشرز نے کلیات” ایک اور دریا کا سامنا” شائع کی.
منیر نیازی نےمتعدد فلموں کے نغمات بھی تحریر کئے جو بے حد مقبول ہوئے۔
حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز اور اکادمی ادبیاتِ پاکستان نے کمالِ فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔
منیر نیازی کے کچھہ اشعار
چاہتا ہوں میں منیرؔ اس عمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیرؔ اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں
شام آ گئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا
اپنے گھروں سے دور بنوں میں پھرتے ہوئے آوارہ لوگو
کبھی کبھی جب وقت ملے تو اپنے گھر بھی جاتے رہنا
اپنی ہی تیغ ادا سے آپ گھائل ہو گیا
چاند نے پانی میں دیکھا اور پاگل ہو گیا
بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا
چاند چڑھتا دیکھنا بے حد سمندر پر منیرؔ
دیکھنا پھر بحر کو اس کی کشش سے جاگتا
دشت باراں کی ہوا سے پھر ہرا سا ہو گیا
میں فقط خوشبو سے اس کی تازہ دم سا ہو گیا
دل کی خلش تو ساتھہ رہے گی تمام عمر
دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا
ایک وارث ہمیشہ ہوتا ہے
تخت خالی رہا نہیں کرتا
غیر سے نفرت جو پا لی خرچ خود پر ہو گئی
جتنے ہم تھے ہم نے خود کو اس سے آدھا کر لیا
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھہ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں
اس نے وعدہ کر لیا میں نے بھی وعدہ کر لیا
جی خوش ہوا ہے گرتے مکانوں کو دیکھہ کر
یہ شہر خوف خود سے جگر چاک تو ہوا
خوشبو کی دیوار کے پیچھے کیسے کیسے رنگ جمے ہیں
جب تک دن کا سورج آئے اس کا کھوج لگاتے رہنا
خواہشیں ہیں گھر سے باہر دور جانے کی بہت
شوق لیکن دل میں واپس لوٹ کر آنے کا تھا
رویا تھا کون کون مجھے کچھہ خبر نہیں
میں اس گھڑی وطن سے کئی میل دور تھا
شہر کی گلیوں میں گہری تیرگی گریاں رہی
رات بادل اس طرح آئے کہ میں تو ڈر گیا
شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا
پھر مجھے اس شہر میں نا معتبر اس نے کیا
صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیرؔ
ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا
تھا منیرؔ آغاز ہی سے راستہ اپنا غلط
اس کا اندازہ سفر کی رائیگانی سے ہوا
تم میرے لیے اتنے پریشان سے کیوں ہو
میں ڈوب بھی جاتا تو کہیں اور ابھرتا
اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے
پردے میں چلے جانا شرمائے ہوئے رہنا
اٹھا تو جا بھی چکا تھا عجیب مہماں تھا
صدائیں دے کے مجھے نیند سے جگا بھی گیا
زوال عصر ہے کوفے میں اور گداگر ہیں
کھلا نہیں کوئی در باب التجا کے سوا
زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا
غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں
آدھا چہرہ روشنی میں ہے آدھا کالے پردے میں
ایک آنکھ ہے سورج جیسی ایک ہے کالے پردے میں
دور تک کچھ بھی نہ تھا معبد کے سائے کے سوا میری اپنی چاپ ہی سے میرا دل ڈرنے لگا
مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیر
اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا
وہ جو پاس آکے یونہی چپ سا کھڑا رہتا تھا
اُس کی تو خُو تھی یہی، تم ہی بلاتے اُس کو