شی جن پھنگ عظیم منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے مرکزی معمار ہیں

بیجنگ (شِنہوا) اب سب کی نگاہیں شی جن پھنگ پر ہیں کیونکہ چینی صدر منگل سے تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم برائے بین الاقوامی تعاون میں دنیا بھر کے عالمی رہنماؤں، کاروباری عہدیداروں اور اسکالرز کی میزبانی کر رہے ہیں۔
بیلٹ اینڈ روڈ چینی صدر شی کا سب سے بڑا نظریہ ہے۔ یہ صرف 10 برس میں دنیا کی مقبول ترین عوامی اشیا ٔ میں سے ایک بن چکا ہے اور اس نے بہت سے ترقی پذیر ممالک میں “ترقی کی منازل طے کرنے کے امکانات” پیدا کئے ہیں۔
بیجنگ میں 2 روزہ بیلٹ اینڈ روڈ اینشی ایٹو اجلاس کے تمام شراکت داروں کو ایک تاریخی موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اس اینشی ایٹو کی قابل ذکر کامیابیوں اور مشترکہ خوشحالی کی سمت پیشرفت جاری رکھیں۔
اس نادر موقع پر، بی آر آئی اور اس کے معمار شی جن پھنگ بارے میں 3 سوالات کا جائزہ لینے کا وقت آگیا ہے۔
صدر شی جن پھنگ نے بی آر آئی کی تجویز کیوں پیش کی؟
اس اینشی ایٹو کی کامیابی کے پیچھے کیا ہے؟
اور چینی صدر اس سے کیا حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں؟
بیلٹ اینڈ روڈ اینشی ایٹو کے مستقبل بارے اہم جوابات شی جن پھنگ کے ماضی سے ملتے ہیں۔
یہ 1960 کی دہائی کے آخر کا ذکر ہے جب ایک نوجوان ٹرین اور ٹرک کے ذریعے اور پیدل تین روزہ سفر کرتے ہوئے چین کے سطح مرتفع لوئس میں پوشیدہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں داخل ہوا۔ وہ ان “تعلیم یافتہ نوجوانوں” میں شامل تھا جنہیں چین کی کسان اکثریت کی دیہی خوبیوں بارے “دوبارہ تعلیم” حاصل کرنے دیہی علاقوں میں بھیجا گیا تھا۔
وہ لیانگ جیا ہی میں زندگی کی سخت مشکلات سے حیران تھے۔ پسوؤں سے بھرے غاروں میں سونا، کئی کئی گھنٹے کی محنت ومشقت اور بھوک سے لڑنا۔ انہوں نے 7 برس تک ان مشکلات کا سامنا کیا اور اپنے گاؤں والوں کو زیادہ بہتر زندگی گزارنے پر مجبور کیا۔
یہ نوجوان چین کے موجودہ صدر شی تھے۔
چینی صدر کی حیثیت سے امریکی شہر سیاٹل کے دورے میں انہوں نے دہائیوں بعد یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا کہ کئی ماہ کوئی گوشت ہماری خوراک میں نہیں تھا۔ اس وقت میری سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ گاؤں والوں کے لیے یہ ممکن بنایا جائے وہ جی بھر کر گوشت کھا سکیں۔
غربت کے تلخ تجربات نے شی جن پھنگ کے اس یقین کو تقویت بخشی کہ ترقی غربت کے مسائل کے حل کی کنجی ہے ۔ مگر کیسے؟
شی نے چین کی ترقی کو پہیہ لگانے کا انتخاب کیا ہے۔
”پہلے سڑکیں، پھر خوشحالی”۔
شی اکثراس مقبول چینی کہاوت کا حوالہ دیتے ہیں کہ کس طرح بنیادی ڈھانچے کی تعمیر ترقی کو فروغ دے سکتی ہے۔ ان کی رائے میں کیبل وے کو تبدیل کرنا یا خاص طور پر کچھ غریب علاقوں میں سڑک کے ایک حصے کی مرمت کرنا غربت کے خاتمے اور عوام کی خوشحالی کا دروازہ کھول سکتا ہے۔
لیانگ جیاہی کے ایک دیہاتی وانگ شیان پھنگ نے یاد کیا کہ کیسے شی نے گاؤں کو بیرونی علاقے سے جوڑنے والی سڑک کی مرمت کی۔ وانگ نے بتایا کہ یہ ایک تنگ اور گھماؤ والا راستہ ہوتا تھا جس پر پہیوں والا ریڑھا بھی نہیں چل سکتا تھا۔ لیکن پھر اسے ہموار اور کشادہ سڑک میں تبدیل کردیا گیا۔ اس سڑک نے گاؤں کی ترقی شروع کرنے میں معاونت کی۔ چینی صدر شی ان دنوں گاؤں کے رہنما کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔
جب شی جن پھنگ نے چین کی باگ ڈور سنبھالی تو یہ ملک دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا تھا اور اسے متعدد چیلنجز کا سامنا تھا۔ گزشتہ 4 دہائی میں چین کی معجزاتی اقتصادی ترقی میں کھلے پن کو ایک لازمی انجن سمجھا جاتا رہا ہے۔ صدر شی جن پھنگ نے اعلیٰ سطح کے کھلے پن میں قومی عزم کا اعادہ کیا ہے۔
رین من یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کے ڈائریکٹر وانگ یی وائی نے بتایا کہ بی آر آئی “چین کی اصلاحات اور کھلے پن میں ایک نیا اعلیٰ سطح کا ڈیزائن بن چکا ہے اور یہ اعلیٰ سطح پر کھلے پن کی نمائندگی کرتا اور اعلیٰ معیار کی ترقی کے حصول سے مطابقت رکھتا ہے۔
جہاں ایک طرف بیلٹ اینڈ روڈ اینشی ایٹو زیادہ کھلے پن میں شی کے عزم سے ہم آہنگ ہے تو دوسری طرف اس نے دنیا کی ترقی کی سب سے فوری ضروریات جیسے زیادہ سے زیادہ عالمی رابطے کے لیے سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کے ذریعے چین کے ساتھ جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
شی کو ترقی پذیر ممالک کی ضروریات کا اچھی طرح علم ہے۔ انہوں نے ایک بار وال اسٹریٹ جرنل کو ایک تحریری انٹرویو میں بتایا تھا کہ 2010 سے 2020 تک ایشیائی بنیادی ڈھانچہ کی ترقی کے لئے درکار فنڈز میں سالانہ کمی تقریباً 800 ارب امریکی ڈالر تھی۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ایشیا کو اپنی ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنے کے لئے 2030 تک بنیادی ڈھانچے میں سالانہ 17 کھرب ڈالرز کی سرمایہ کاری درکار ہے۔
ایک امریکی ماہر اور کتاب ” ہاؤ چائنہ لیڈرز تھنک” کے مصنف رابرٹ کوہن نے کہا کہ بیلٹ اینڈ روڈ اینشی ایٹو کو ریل، تیز رفتار ریل، بندرگاہیں، ہوائی اڈے، بجلی گھروں، ٹیلی مواصلات جیسے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں چین کے منفرد تجربے اور مسابقتی فوائد حاصل ہیں۔
تاہم بیلٹ اینڈ روڈ اینشی ایٹو بنیادی ڈھانچے سے آگے کی شے ہے۔ بی آر آئی کی ترقی بارے وائٹ پیپر میں بتایا گیا ہے کہ یہ عالمی ترقی میں درپیش مسائل کا چینی حل ہے۔
امن، ترقی اور حکمرانی میں موجود خسارہ بنی نوع انسان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ بی آر آئی اس خسارے کو دور کرنے کا ایک موقع فراہم کرتا ہے۔
چینی رہنما کی رائے میں جس طرح چین دنیا سے الگ تھلگ رہ کر ترقی نہیں کر سکتا، اسی طرح دنیا کو اپنی ترقی کے لیے چین کی ضرورت ہے۔
وانگ نے کہا کہ شی کی بیلٹ اینڈ روڈ اینشی ایٹو کی تجویز بنیادی طور پر چین کے ترقیاتی تجربات کو باقی دنیا کے ساتھ بانٹنے کی خواہش تھی۔
جیسا شی کہتے ہیں کہ بی آر آئی کی پیروی کا مطلب پہیے کی دوبارہ ایجاد نہیں بلکہ اس کا مقصد ان ممالک کی تقابلی قوت سے فائدہ اٹھاکر ان کی ترقیاتی حکمت عملی کو مکمل کرنا ہے۔
چینی صدر شی جن پھنگ نے کہا ہے کہ انہوں نے جو بیلٹ اینڈ روڈ اینشی ایٹو پیش کیا ہے اس کا مقصد باہمی فائدہ اور مشترکہ ترقی کا حصول ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں