کاشغر (شِنہوا) چین ۔ پاکستان سرحدی کاؤنٹی کے درمیان سنکیا نگ ویغور خود اختیار خطے کی ٹاشکورگان تاجک خوداختیار کاؤنٹی میں پاکستانی تاجر بیگ سیف اللہ کو سرحدی معائنہ ، کسٹمز اور غیر ملکی تجارت کا عملہ اچھی طرح پہچانتا ہے۔
سیف اللہ نے بتایا کہ وہ 1990 سے ٹاشکورگان اور اپنے آبائی شہر ہنزہ کے درمیان کاروبار کر رہے ہیں۔ برسوں سے چینی افراد کے ساتھ کام کرنے والے 65 سالہ سیف اللہ روانی سے چینی بھی بول سکتے ہیں۔
سیف اللہ کا عالمی کاروبار نقل وحمل سے شروع ہوا ۔ سب سے پہلے انہوں نے سنکیانگ کے کاشغر سے ریشم اسلام آباد بھیجی تھی۔
ایک خاص رقم جمع کرنے کے بعد انہوں نے ٹاشکورگان میں ایک دکان کھولی۔ وہ 300 کلومیٹر سے زیادہ دور کاشغر سے سامان خریدتے اور ان پاکستانی ہم وطنوں کو فروخت کرتے ہیں جو درہ خجراب کے راستے سامان خریدنے آتے ہیں۔
وہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے یہ کام کررہے ہیں۔ سیف اللہ کی دکان سے بے شمار چینی ساختہ کمبل، چمڑے کی جیکٹس، روزمرہ اشیائے ضرورت ، اوونز اور دیگر سامان پاکستانی تاجر درہ خنجراب سے ہنزہ اور پاکستان کے دیگر حصوں میں لاتے ہیں۔
سیف اللہ نے کئی برس کی سرحد پار تجارت سے مختلف کاروباری شراکت داروں کے ساتھ بڑے پیمانے پر رابطے قائم کرلئے ہیں اور خریداری کے متعدد راستے کھولے ہیں۔ سیف اللہ نے بتایا کہ کورلا، ہوتان، اکسو، ارمچی اور دیگر مقامات پر میرے چینی کاروباری شراکت دار ہیں۔
مجھے اپنے بنائے ہوئے بین الاقوامی کاروباری رابطوں پر بھروسہ ہے۔ میرا رواں سال ہورگوس کا دورہ کرنے کا ارادہ ہے جہاں معلومات کے مطابق سرحدی تجارت اچھی چل رہی ہے۔
ٹاشکورگان سرحدی تجارتی خدمات مرکز کے ڈائریکٹر دیاؤ گوفا نے بتایا کہ چین۔ پاکستان سرحدی تجارت رواں سال جون سے دوبارہ شروع ہوچکی ہے۔
اُس وقت سیف اللہ نے 30 ہزار یوآن مالیت کا پہلا کاروبار کیا ۔اس میں قالین، دستکاری اور دیگر سامان کا مجموعی وزن تقریباً 900 کلو گرام تھا۔
اس کے ساتھ ہی سیف اللہ نے ہنزہ کے متعدد پاکستانی تاجروں سے بھی رابطہ کرکے انہیں سرحدی تجارت میں حصہ لینے کی تر غیب دی۔
دیاؤ بنیادی طور پر ٹاشکورگان سرحدی تجارتی خدمات مرکز میں چین- پاکستان سرحدی تجارتی کے لئے کام کرتا ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ سیف اللہ نہ صرف ہم چینی افراد سے واقف ہے بلکہ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ وہ پاکستانی تاجروں کے حالات بھی جانتا ہے ۔ ان کے پاس رابطوں کا ایک بہت وسیع نیٹ ورک ہے اور وہ سرحدی تجارت میں اچھا کام کرنے میں ہمارے لئے ایک بہترین مددگار ہیں۔
یہ نوجوان چینی سرکاری ملازم سیف اللہ کے ساتھ صرف نصف سال سے رابطے میں ہے لیکن وہ سیف اللہ کی تعریفوں کے پل باندھتا ہے اور انہیں ایک مستند “ٹاشکورگان مقامی” سمجھتا ہے۔
سیف اللہ ہمشہ مذاق کرتے ہو ئے کہتا ہے کہ وہ “ٹاشکورگان کا مقامی” ہے اور انہوں نے یہاں ترقی ہوتے ہوئے دیکھی ہے۔ وہ نہ صرف ٹاشکورگان کے تقریباً ہرمقام کا نام جانتا ہے بلکہ اس کاؤنٹی کے لئے ایک گہرا احساس بھی رکھتا ہے ۔
انہوں نے مذاق کر تے ہو ئے کہا کہ ماضی میں ٹاشکورگان کے لوگ “ٹی ایچ ڈبلیو” یا “ٹاشکوگان ہارس ورک ” سے سفر کرتے تھے لیکن اب لوگ امیرہورہے ہیں تو سڑکوں پر زیادہ سے زیادہ بی ایم ڈبلیو نظر آتی ہیں۔
انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ہوائی جہاز کے اڑان بھرنے کی شکل بناکر چین کی ترقی کی تیز رفتاری بیان کی۔
سیف اللہ نے بھی سرحد پار تجارت کے فوائد سمیٹے ہیں۔ ان کا کاروبار بڑھنے سے خاندان کی خوشحالی میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے خوشی میں اسلام آباد میں خریدے گئے 3 منزلہ مکان کی تصاویر شِںہوا کے نامہ نگار کو دکھائیں۔
اکیلے جدوجہد کی بجائے رواں سال سیف اللہ اپنے سب سے چھوٹے صاحبزادے کریم اللہ بیگ اور اپنے دو بھتیجوں کو ٹاشکورگان لے آئے ہیں جو سرحد پار کاروبار میں مدد کررہے ہیں ۔
اب وہ اپنے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور رابطوں میں پس پردہ زیادہ کردار ادا کررہے ہیں۔
کریم نے 2019 میں چین کے چھنگ ژو ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میکاٹرونک ٹیکنالوجی سے گریجویشن کیا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ میرے والد نے میرے لئے چھنگ ژو میں تعلیم حاصل کرنے اور ٹاشکورگان میں کاروبار کرنے کا انتظام کیا۔ 29 سالہ نوجوان نے سیف اللہ کے منصوبے کی مخالفت نہیں کی ۔
انہوں نے کہا کہ چھنگ ژو میں میں علم اور دوستی کا حصول اور بیرون ملک تعلیم حاصل کرنا ایک حیرت انگیز تجربہ تھا۔ مجھے نہیں لگتا کہ کاروبار کرنا بہت مشکل ہے۔
سیف اللہ کے بیٹے کےے لئے ٹاشکورگان اجنبی نہیں ہے۔ ہنزہ سے درہ خنجراب کے راستے چین میں داخل ہوں، کاشغرایئرپورٹ جائیں اور پھر شنگھائی کے لیے پرواز کرجائیں ۔
یہ کریم کا اسکول جانے کا راستہ ہے۔ ایک کے بعد ایک دوروں سے انہوں نے چین کے سنکیانگ بارے دوستانہ تاثر قائم کیا اور اس چھوٹے سے سطح مرتفع سرحدی علاقے ٹاشکورگان سے بھی واقف ہوگئے۔
سیف اللہ نے بتایا کہ وہ بوڑھے ہورہے ہیں اور ان کا کاروبار آخر کار ان کے بیٹے کو منتقل ہوجائے گا۔ سیف اللہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے امکانات بارے پرامید ہیں اور کریم کو اپنا تمام تجربہ منتقل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ صرف چینی بول سکتے ہیں لیکن کریم لکھ بھی سکتا ہے اور اس کے خیالات زیادہ جدید اور نئے ہیں۔
چین اور پاکستان کے درمیان اہلکاروں کے تبادلے اور معاشی و تجارتی سرگرمیوں بارے میں سیف اللہ کا ایک ذاتی قول ہے ۔ وہ کہتے ہیں ہم پاکستانی اور چینی ہمسایہ ہیں اور ہمارے تعلقات ہزاروں برسوں پر محیط ہیں ۔
سیف اللہ کے والد اور ان کے ساتھیوں نے ایک بار شاہراہ ریشم پر واقع درہ قراقرم عبور کرکے ٹاشکورگان تک رسائی حاصل کی تھی، جس میں سے ہر ایک کو گھوڑے پر سوار ہونے اور پیدل چلنے میں تقریباً دو ہفتے لگے تھے ۔ان میں سے ہر ایک صرف 20 سے 30 کلو گرام سامان واپس لایا تھا۔
اب سیف اللہ کے آبائی شہر ہنزہ کے تاجر چین۔ پاکستان دوستی شاہراہ پر شٹل بس سے سفر کرتے ہیں جس میں ہر ایک سمت سفر میں صرف 6 گھنٹے لگتے ہیں۔
سرحدی تجارت کی بڑھتی ہوئی طلب کے پیش نظر چین اور پاکستان بھی ایک ہی مقصد کے تحت کام کررہے ہیں۔ مقامی چینی حکومت تجارت میں بہتری کا منصوبہ تیار کررہی ہے جس کا مقصد درآمدی راستے بہتر بنانا، درآمدی کیٹگریز اور ترسیل کو بڑھانا ہے۔
وہ مزید چینی کاروباری اداروں کو اس سرزمین کی سمت راغب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ وہ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تجارت کو مزید فروغ دیکر پاکستانی سامان کی کھپت میں مدد کرسکیں۔
سیف اللہ اور ان کے بیٹے کے لیے چین پاکستان اقتصادی راہداری سے آنے والا یہ ایک سنہری موقع ہے ۔