عالمی بندرگاہوں میں چینی سرمایہ کاری کی حقیقی تصویر
بیجنگ (شِنہوا) وائس آف امریکہ (وی او اے) اور وال اسٹریٹ جرنل (ڈبلیو ایس جے) سمیت دیگر امریکی میڈیا ادارے “غیر ملکی بندرگاہوں پر چینی سرمایہ کاری بارے سیکیورٹی خدشات” کے بیانیے کو گزشتہ چند ماہ سے بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ ا نہیں مستقبل میں “فوجی مقاصد” کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کا عنوان “چین کی عالمی بندرگاہوں میں سرمایہ کاری سیکیورٹی خدشات کو جنم دیتی ہے” ہے۔ اس رپورٹ میں یہ دعویٰ سامنے آیا ہے کہ چین کے زیر انتظام یہ بندرگاہیں لاجسٹک سپورٹ کے ساتھ خفیہ معلومات اکٹھا کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہیں بلکہ مستقبل میں انہیں اڈے کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
چائنہ گلوبل نیٹ ورک آف شپنگ پورٹس کے عنوان سے شائع شدہ ایک مزید رپورٹ کے مطابق چونکہ تجارتی بندرگاہیں فوجی مقاصد میں استعمال کی جاسکتی ہیں، اس لئے تجزیہ کار طویل عرصے سے بیجنگ کے زیر انتظام بندرگاہوں کے سیکیورٹی اثرات بارے میں فکرمند رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق مذکورہ بالا دعوے بے بنیاد قیاس آرائیوں کے سوا کچھ نہیں ہیں، اس حقیقت پر زور دیتے ہوئے کہ کسی غیر ملکی بندرگاہ میں سرمایہ کاری کو فوجی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں، اس کا انحصار بہت سی شرائط پر ہے جن میں میزبان ملک سے ایک خودمختار ریاست کی حیثیت سے حاصل کردہ اجازت بھی شامل ہے۔
درحقیقت، حالیہ برسوں میں چین کی غیر ملکی بندرگاہوں میں تیزی سے بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری بین الاقوامی مارکیٹ کے ساتھ اس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تجارت کا فطری نتیجہ ہے۔
تجزیہ کاروں کی رائے میں دنیا بھر میں سامان کے سب سے بڑے تاجر اور دنیا بھر کے 140 سے زائد ممالک اور خطوں کے ساتھ چین ایک بڑا تجارتی شراکت دار ہے ۔ اس حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر چین تجارت اور جہازرانی کی سہولت اور لین دین کی لاگت میں بچت جیسے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے غیر ملکی بندرگاہوں میں اپنی سرمایہ کاری میں اضافہ کرتا ہے تو یہ تجارتی منطق کے عین مطابق ہے۔
چین کی دنیا میں جہازرانی بیڑے کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت 2015 میں تیسرے مقام سے بڑھ کر دوسرے نمبر پر آچکی ہے۔
شنگھائی انٹرنیشنل اسٹڈیز یونیورسٹی کے اسکول آف اکنامکس اینڈ فنانس کے ڈین ژانگ یوگوئی نے بتایا کہ دنیا کے سب سے اہم فوری سامان فراہم کنندہ اور تیار شدہ مصنوعات کے سب سے بڑے فراہم کنندہ کی حیثیت سے چین کو عالمی منڈی میں سامان کی ترسیل کے لئے نہ صرف دوطرفہ یا کثیر الجہتی تجارت اور سرمایہ کاری سہولت درکار ہے بلکہ عالمی نقل و حمل کے راستوں پر منظم طریقے سے لنگرانداز ہونے اور اس کا انتظام بھی درکار ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2013 میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے آغاز کے بعد سے گزشتہ ایک دہائی میں چین نے 150 سے زائد ممالک اور 30 سے زائد بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ 200 سے زائد تعاون کی دستاویزات پر دستخط کیے ہیں جس سے 3 ہزار سے زائد تعاون کے منصوبے اور تقریباً 10 کھرب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی ۔
جہاں تک پاکستان کی گوادر بندرگاہ کا معاملہ ہے تو اس بارے میں اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک ایشین انسٹی ٹیوٹ آف ایکو سولائزیشن ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر شکیل احمد رامے نے حال ہی میں کہا تھا کہ اس میں (چین کی) کوئی فوجی مداخلت نہیں ہے۔
انہوں نے شِنہوا کو بتایا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) خالصتاً اقتصادی ترقی کا اقدام ہے جس کے خلاف ابتداء سے ہی مغربی ممالک اور خطے میں ان کے اتحادیوں نے پروپیگنڈا شروع کررکھا ہے۔ بی آر آئی اور سی پیک کو کسی نہ کسی طریقہ سے اس لئے بدنام کیا جارہا ہے کہ وہ ترقی کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔