چین، سماعت سے محروم چینی تیراک کا ایف آئی ایس یو گیمز میں خواب پورا ہو گیا

چھنگ دو (شِنہوا) چھنگ دو یونیورسٹی کھیلوں میں تیراکی کے مقابلوں کے پہلے روز چینی ٹیم کے کئی ارکان نے صبح کے وقت گرم موسم میں ہونے والے 9 مقابلوں میں حصہ لیا۔ ان میں اولمپک گولڈ میڈلسٹ ژانگ یوفائی اور نئے عالمی چیمپیئن چھن ہائی یانگ بھی شامل تھے۔
تاہم پھنگ ہوئی دی اس اول درجے کی ٹیم کا حصہ نہیں تھی۔ وہ خواتین کی 400 میٹر انفرادی دوڑ کے سیمی فائنل میں پہنچنے میں ناکام رہیں۔
صبح کے وقت تقریباً تمام ترتوجہ چھن اور ژانگ پرمرکوز تھی جو فوکوکا ورلڈ ایکویٹکس چیمپیئن شپ میں شرکت کے صرف ایک دن بعد ایکشن میں واپس آئیں۔
تاہم چینی تیراک ٹیم کے نائب سربراہ لیو ژین چھنگ نے سماعت سے محروم کھلاڑی ایتھلیٹ پھنگ کا کئی بار ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس مضبوط قوت ارادی ہے اور وہ ہمیشہ خود کو چیلنج کرنے کو تیار رہتی ہیں۔
نا ئب سر براہ کے طور پر وہ واقعی ان کے جذبے سے متاثر ہو ئے ہیں۔
خواتین کی 400 میٹر انفرادی میڈلے ہیٹ کے دوران پھنگ نے اپنے دو بھارتی حریفوں کو شکست دی اور 5:15.49 کے وقت کے ساتھ 15 ویں نمبر پر رہیں تاہم وہ کوالیفائی نہ کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ خود سے مطمئن نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ دوسری دو تیراک سست تھیں اور وہ پریشان اور ان کے زیراثر تھی۔
انہوں نے کہا کہ تاہم اولمپک چیمپیئنز کے ساتھ ملکر یونیورسٹی کھیلوں میں مقابلہ کرنے کے قابل ہونا ان کے لئے کافی دلچسپ تجربہ رہا ۔ یہ ایک خواب کی مانند ہے۔ انہوں نے 3 روز قبل ایف آئی ایس یو گیمز و یلج میں ٹیم کے دیگر ارکان کے ساتھ اپنی سالگرہ منائی تھی۔
چین کے مشرقی صوبہ شان ڈونگ میں پیدا ہونے والی پھنگ اب سینٹرل ساؤتھ یونیورسٹی میں نئی طالبہ ہیں۔ 2 برس کی عمر میں بیماری کے باعث وہ سماعت سے محروم ہوگئیں۔
جب وہ 6 برس کی ہوئی تو ان کے والد انہیں ایک سوئمنگ پول لے گئے جہاں اس نے کھیل میں بہت دلچسپی اور صلاحیت کا مظاہرہ کیا اور تب سے ایک پیشہ ور ایتھلیٹ بننے کے لئے جدو جہد کر رہی ہے۔
شروع میں یہ آسان نہ تھا وہ کوچ کی بات سن نہیں سکتی تھی اور بولنے کی صلاحیت بھی دوسروں بچوں کی نسبت کم تھی۔ اس سب کے باوجود اس چھوٹی بچی نے نہ شکایت کی اور نہ ہی ہار مانی ۔
انہوں نے کوچ کے ہونٹ اور اشارے دیکھ کر بات سمجھنے کی کوشش کی اور تالاب کی تہہ میں غوطہ لگا کر دیکھا کہ دوسرے بچے کیسے تیرتے ہیں۔
انہوں نے ہائی اسکول میں داخل ہونے کے بعد اسکول کی تعلیم اور تیراکی کے توازن کو اچھے طریقے سے برقرار رکھا۔ انہیں ہر مقابلے سے قبل تربیت کے لئے ہر روز اسکول سے 35 کلومیٹر کا سفر طے کرکے جانا پڑتا تھا ۔ ان کے والد ہر روز انہیں تربیتی مرکز سے اسکول واپس چھوڑتے تھے تاکہ وہ زیادہ اسباق سے محروم نہ ہوجائیں ۔
انہوں نے کبھی بھی اپنی تھکا وٹ کو غالب نہیں آ نے دیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں