“کوئی بادشاہت نہیں!” کے عنوان سے احتجاجات پورے 50 امریکی ریاستوں میں جاری ہیں، اور میں نے تقریباً تمام بڑے شہروں کی فوٹیجز دیکھی ہیں۔ لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل کر ٹرمپ کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ کئی تقریریں خاص طور پر غزہ کے بارے میں بھی تھیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ خود اس کے اپنے ملک میں لوگ اسے اہمیت یا حمایت نہیں دے رہے—پھر بھی ہمارا ہائبرڈ نظام کیوں اس کے آگے جھکنے پر تُلا ہوا ہے؟ کیوں؟
امریکہ کی جامعات میں مزاحمت کا ایک نیا باب کھل چکا ہے۔ یہ مزاحمت محض نصاب یا فنڈنگ کے مسئلے پر نہیں بلکہ فکری آزادی کے تحفظ کے لیے ہے۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اپنے دورِ اقتدار میں ایسی پالیسیوں کی بنیاد رکھی جن کے تحت اعلیٰ تعلیمی اداروں پر قومی و نظریاتی ہم آہنگی کے نام پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔
براؤن، پنسلوانیا، کیلیفورنیا اور ورجینیا جیسی بڑی جامعات نے واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی ایسی ہدایت کو تسلیم نہیں کریں گی جو تدریس اور تحقیق کی آزادی محدود کرے۔ انتظامیہ نے اشارہ دیا تھا کہ وفاقی فنڈنگ حاصل کرنے والے اداروں کو حکومت کی مقرر کردہ نصابی سمت اپنانی ہوگی، بصورت دیگر ان کی گرانٹس روک دی جائیں گی۔
یہ پالیسی گویا علم کو اختیار کے تابع کرنے کی کوشش تھی۔ براؤن یونیورسٹی کے طالب علم پال ہیوز نے کہا کہ ایسی تجاویز تعلیمی اداروں کو فکری غلامی کی طرف دھکیلتی ہیں۔ ان کے الفاظ میں:
> ’’اگر حکومت یہ طے کرے کہ ہم کیا پڑھیں اور کیا نہ پڑھیں تو تعلیم کا مقصد ختم ہو جاتا ہے۔‘‘
اسی یونیورسٹی کی طالبہ روزی شلز کے مطابق یہ وہی طرزِ فکر ہے جو ماضی میں کمیونسٹ یورپ کے ریاستی تعلیمی نظام میں دیکھی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ سوچ علم کو سوال سے کاٹ کر حکم کی تابع بناتی ہے۔‘‘
—
ٹرمپ کے مشیروں نے ان اقدامات کو ’’امریکی اقدار کے فروغ‘‘ کا نام دیا، مگر ناقدین کے نزدیک یہ دراصل فکری کنٹرول کی کوشش تھی۔ کئی یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے کہا ہے کہ حکومت کو نصاب کی سمت طے کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ ان کے مطابق تحقیق کو ایجنڈے کا نہیں بلکہ سچائی کی جستجو کا تابع ہونا چاہیے۔
ایک پروفیسر نے کہا:
> ’’امریکی یونیورسٹیوں کی بنیاد آزادیِ فکر پر رکھی گئی تھی۔ اگر یہ آزادی چھن گئی تو علم کا وقار بھی ختم ہو جائے گا۔‘‘
—
کئی اداروں نے اس پالیسی کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا عندیہ دیا ہے۔ ماہرینِ قانون کے مطابق وفاقی حکومت کو یہ حق نہیں کہ وہ فنڈز کے بدلے فکری اطاعت کا مطالبہ کرے۔ امریکن ایسوسی ایشن آف یونیورسٹی پروفیسرز نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’یہ مداخلت علمی آزادی کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔‘‘
براؤن یونیورسٹی کے طلبہ کے مطابق یہ لڑائی کسی ادارے کی نہیں بلکہ علم کی بقا کی جنگ ہے۔ پال ہیوز نے کہا:
> ’’ہم کسی ایجنڈے کے لیے نہیں، سوچنے کے حق کے لیے پڑھتے ہیں۔‘‘
روزی شلز نے کہا:
> ’’یونیورسٹی اس وقت تک زندہ ہے جب تک وہ سوال کرتی ہے، ماننے لگے تو مر جاتی ہے۔‘‘
—
یہ تنازع اب محض فنڈنگ یا انتظامی ضابطوں سے آگے بڑھ کر ایک وسیع تر علامت بن چکا ہے۔ یہ اس سوال کا فیصلہ ہے کہ علم آزاد رہے گا یا اختیار کے تابع ہو جائے گا۔ اگر جامعات نے یہ مزاحمت جاری رکھی تو وہ اپنی ساکھ اور کردار برقرار رکھ سکیں گی، اور اگر دباؤ کے سامنے جھک گئیں تو آنے والی نسلیں ایک محدود اور خوف زدہ علمی ماحول کی وارث ہوں گی۔
> ’’یہ جنگ نصاب کی نہیں، آزادی کی ہے۔‘‘