چین، سنہری پھل سابقہ غربت کے شکار رہائشیوں کے لئے دولت کا ذریعہ ثابت ہوئے

چین، سنہری پھل سابقہ غربت کے شکار رہائشیوں کے لئے دولت کا ذریعہ ثابت ہوئے
گوئی یانگ (شِنہوا) کانٹے دار ناشپاتی ایک جنگلی پھل کی قسم ہے جو اپنی قدرتی حالت میں کانٹوں سے بھرے ہوتی ہے تاہم جب اس کا رس کشید کیا جائے تو یہ کھٹاس اور لطیف مٹھاس کا مرکب ہوتا ہے۔
اس پودے کا لاطینی نام روزا روکس برگی ہے۔ یہ چین کے جنوب مغربی صوبہ گوئی ژو کے متعدد علاقوں میں گزشتہ کئی دہائیوں سے پتھریلے صحرا کا مقابلہ کررہا ہے۔
پتھریلے صحرا سے مراد وہ علاقہ ہے جہاں زمین انحطاط کا شکار ہوتی ہے اور جہاں نباتات کم ہونے سے چٹانیں سامنے آتی ہیں اور وہ صحرا کا منظر دکھا ئی دینے لگتا ہے۔
مقامی زبان میں اسے “درختوں سے خالی، پھیلے پتھروں کے ساتھ پہاڑ” کہا جاتا ہے جبکہ محققین نے اسے “ماحولیاتی سرطان ” قرار دیا ہے. بدقسمتی سے یہ علاقے اکثر کم ترقی یافتہ خطوں میں پائے جاتے ہیں۔
کانٹے دار ناشپاتی جو سرد، جزوی سایہ کے مطابق ڈھلنے اور مضبوط جڑوں کے نظام میں اپنی لچک کی بدولت جانی جاتی ہے۔ یہ فطری طور پر پتھریلے صحرا کا مئوثر انداز سے مقابلہ کرنے ، پانی اور مٹی کے وسائل کو محفوظ کرنے کی ضروری اور مفید خاصیت کی حامل ہے۔
حکومت کی ثابت قدمی کی بدولت گوئی ژو کے لیوپن شوئی، چھیان نان ، ان شن اور بی جی جیسے شہروں کے انتہائی دشوار گزار اور پتھریلے علاقوں میں کانٹے دار ناشپاتی کی کاشتکاری کی جارہی ہے۔ یہ علاقے پتھریلے صحرا کے چیلنجزسے نبرد آزما ہیں۔
اس اقدام سے نہ صرف پتھریلے صحرا کی حالت میں نمایاں بہتری ہوئی ہے بلکہ مقامی باشندوں کو متعلقہ مصنوعات تیار کرنے میں مدد کرکے معاشی خوشحالی کی راہ بھی ہموار کی گئی ہے۔
گوئی ژو اس وقت کانٹے دارناشپاتی کی مصنوعات پر مرکوز 78 پیداواری اور پروسیسنگ اداروں کا مسکن ہے جہاں سالانہ تقریباً 3 لاکھ 20 ہزار ٹن تازہ پھلوں کی پروسیسنگ کی جاتی ہے۔
جیاشی گاؤں کے رہائشی 51 سالہ رین گوانگ وی نے اپنی ڈیڑھ ہیکٹر زمین ایک کانٹے دار ناشپاتی کمپنی کو 24 یوآن (900 پاکستانی روپے) فی ہیکٹر سالانہ کرائے پر دی ہے جس سے انہیں نہ صرف مستحکم آمدن ہوتی ہے بلکہ کانٹے دار ناشپاتی مرکز میں ملازمت بھی حاصل کرلی ہے جس سے یومیہ اضافی 100 یوآن (4000 پاکستانی روپے) کمائی ہوتی ہے۔
گوئی ژو کے مرکز میں پودے لگانے والے علاقوں کے فیلڈ دورے کے دوران اقوام متحدہ کے کنونشن ٹو کمبیٹ ڈیزرٹیفیکیشن کے ایگزیکٹو سیکرٹری ابراہیم تھیاوا نے “گوئی ژو ماڈل” کی تعریف کی۔ انہوں نے اسے معاشی فوائد پیدا کرنےاور پتھریلے صحرا کا مقابلہ کرنے والا ایک قابل ستائش اقدام قرار دیا جسے عالمی سطح پر اپنانے کے امکانات روشن ہیں۔
پتھریلے صحرا سے نمٹنے میں کانٹے دار ناشپاتی پھل کا استعمال ماحولیاتی نظم و نسق میں چین کی دانشمندی میں ایک مثال ہے۔
تنزانیہ کی یوتھ ریولوشنری پارٹی کے چیئرمین محمد علی محمد نے ایکو فورم گلوبل گوئی یانگ 2023 میں اپنی گفتگو کے دوران کہا تھا کہ وہ ایک چینی محاورے سے متاثر ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ یہ انسان اور فطرت کے درمیان بہترین توازن کو اجاگر کرتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں