کشمیر کے پہاڑ اور کٹھارا گاڑیاں
تحریر محمد جمیل قریشی
خطہ کشمیر میں بڑھتے ھوئے ٹریفک حادثات اور قیمتی جانوں کا ضیاع ذمہ دار کون؟ یقیناً یہ خوفناک صورتحال ہے جس کا تدارک ناگزیر ھے ٹریفک میں رونما ھونے والے المناک واقعات نئے نہیں قیمتی جانوں کے ضیاع پر رونما ھونے والے دلخراش واقعات پچھلی صدی سے تسلسل کیساتھ پہاڑی علاقوں کے مختلف مقامات میں رونما ھورہے ہیں۔ کٹھارا گاڑیوں کے مالکان پر مشتمل منظم مافیہ آزادکشمیر کے اعلی حکام اور ٹریفک پولیس کی آنکھوں سے یا تو مکمل طور پر اوجھل ھے یا ملی بھگت سے مکروہ کاروبار دیدہ دلیری سے جاری ھے۔ المیہ یہ کہ آزاد کشمیر کے شہری مسترد شدہ کنڈم گاڑیاں دہائیوں پرانی گاڑیاں پاکستان کے مختلف کباڑخانوں سے آنے پانے خرید کر چالو حالت میں لاتے ہیں اور طرح کشمیر کے مختلف پہاڑی علاقوں میں دیدہ دلیری اور بدمعاشی سے ان فرسودہ اور گلی سڑی گاڑیاں کو روزگار میں کر نہ صرف قیمتی جانیں ضائع کرتے ہیں بلکہ عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔ آزاد کشمیر میں پرانی کھٹارا جیپیں اور ٹیوٹا کرولا کاریں جو بالترتیب 74, 78 اور 82 ماڈل ہیں کے زریعے نہ صرف منہ مانگے کرائے لیتے ہیں بلکہ مجبور شہریوں اور ملازم پیشہ افراد کو لوٹتے ہیں خستہ حال رابطہ سڑکوں پر ان کٹھارا گاڑیوں کی بھرمار ہے اوپر سے دس گنا ذیادہ اوور لوڈنگ معمول بن چکا۔ قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع نئی بات نہیں یہ سات دہائیوں پرمشتمل ھے۔ حالیہ دنوں میں وادی نیلم، جہلم ویلی سمیت متعدد دور دراز پہاڑی علاقوں میں ٹریفک حادثات میں ھوشرباء اضافہ ھوا ھے اور قیمتی جانیں گئیں۔ ستم ظریفی یہ ھے کہ پانچ سے دس کلو میٹر کی خستہ حال رابطہ سڑکوں پر دھواں چھوڑتی گاڑیوں کے مالکان لاھور اور کراچی کے سفر سے بھی زاہد کرائے وصول کرتے ہیں۔ ایک کٹھارا جیپ پر پچاس سے ساٹھ من ایشاء خورد ونوش کے وزن کے علاوہ دس سے پندرہ سواریاں بٹھائی جاتی ہیں جبکہ اتنی ھی تعداد میں سواریاں گاڑیوں کے ڈالوں سے لٹک رھی ھوتی ہیں اور حادثات عموما بریک فیلنگ، نہ تجربہ کاری، غلط ڈرائیونگ، یا دیگر میکنیکل خرابی کا سبب بنتے ہیں۔ خاص طور پر یہ بھی دیکھا گیا ھے کہ پرائیویٹ کٹھارا جیپوں وغیرہ کے کنڈکٹرز گاڑیاں چلا رہے ھوتے ہیں اور ان علاقوں میں ٹریفک اہلکار تو کجا پولیس چوکی تک نہیں ھوتی اور نہ ھی کوئی پوچھنے والا ھوتا ھے اپنے علاقوں میں ان پرائیویٹ گاڑی مالکان کی مکمل اجارہ داری قائم ھوتی ھے اور اس منظم مافیہ کیخلاف کوئی بھی آواز بلند کرنے کی جرات تک نہیں کرپاتا اور نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ ناتجرپہ کار ڈرائیورز کی نہ تجربہ کاری کی وجہ سے گلی سڑی پرانی گاڑیاں مضبوط حفاظتی باڑ نہ ھونے سے بھی ہزارون فٹ گہری کھائیوں میں جاگرتی ہیں یا پہاڑی نالوں اور دریاؤں کی نذر ھوتی ہیں تاہم درجنوں افراد موت کی وادی میں چلے جاتے ہیں۔ پبلک روٹس پر چلنے والی مسافر بسوں کا احوال بھی مختلف نہیں ان گاڑیاں پر بھی پچاس ساٹھ سواریاں بٹھائی جاتی ہیں اور چھتوں پر ایک ٹرک کے برابر سامان الگ سے لوڈ کیا جاتا ھے اور جوں ھی یہ گاڑیاں پاکستان سے کشمیر کی حدود میں داخل ھوتی ہیں گاڑی مالکان اور کنڈکٹرز کا اپنا راج شروع ھوجاتا ہے ان گاڑیوں پر بداخلاقی بدتمیزی مارکٹائی ایک معمول ھے کبھی کبھار یہ گاڑیاں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ھوئے پاکستانی حدود میں داخل ھوتی ہیں تب چلان ھوتا ھے اول تو گاڑی کی بک میں ہدیہ دیکر جان چھڑالی جاتی ھے کیونکہ رشوت بھی تو خیر سے ہمارے اسلامی معاشرے کی پہچان بن چکی ھے۔ کسی شہری حدود میں کوئی المناک ٹریفک حادثہ رونما ھو بھی جائے تو عوامی ردعمل سے بچنے کیلیے زیادہ سے زیادہ پولیس اہلکار یا کسی انظامی آفسر کا دوسری جگہ تبادلہ کردیا جاتا ھے اور طرح معاملہ دبا جاتا ھے اندھیرنگری اور چوپٹ راج کا نہ ختم ھونے والا سلسلہ دہائیوں سے اپنی آب وتاب کیساتھ سے جاری وساری ھے۔ ٹریفک پولیس اور منظم گاڑی مالکان مافیہ اس کا سارے کھیل کا براہ راست ذمہ دار ھے میں اپنے کالم کے زریعے آئی جی پی اور چیف سیکرٹری آزادکشمیر سے مطالبہ کرتا ھوں تمام کٹھارا گاڑیوں کے چلنے کے پبلک استعمال پر مکمل طور پر فی الفور پابندی عائد کی جائے اور اس بھیانک ومکروہ دھندے کا حصہ منظم مافیہ کیخلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے اور قیمتی جانوں کے ضیاع پر لواحقین کو فوری امداد دی جائے اور ایسے حادثات سے نمٹنے کیلیے فوری اور عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔