پاکستانی طا لب علم چین کے ترقیاتی ماڈل کے معترف

اسلام آباد (شِنہوا) پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں واقع گوادر یونیورسٹی کے 22 سالہ طالب علم عامر بزنجو نے چین کی ترقی کو کافی دلچسپ اور متاثر کن قرار دیا ہے۔
وہ چین۔پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت بندرگاہی شہر گوادر میں ہونے والی ترقی کو دیکھ رہے ہیں اور اب انہیں اسلام آباد کے دورے کے دوران اپنے صوبے کی ترقی کا وژن ملا ہے جس میں انہوں نے چینی حکام سے ملاقات کی اور دونوں ممالک کے تعاون سے مختلف پلیٹ فارمز اور کنسورشیم کا دورہ کیا۔
وہ گوادر یونیورسٹی کے متعدد طلبا اور فیکلٹی اراکین پر مشتمل ایک وفد کا حصہ تھے جس نے جمعرات سے ہفتہ تک اسلام آباد کا دورہ کیا تھا۔ دورے کا اہتمام پاکستان میں چینی سفارت خانے اور اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک پاکستان۔ چائنہ انسٹی ٹیوٹ نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ میں چینی میزبان کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس دورے کا انتظام کیا جس سے ہمیں تجربہ حاصل ہوا۔ ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ اقتصادی ترقی کے بارے میں خیالات کا تبادلہ کیا ۔
ہمیں یہ دیکھ کر ایک نیا احساس ملا کہ دونوں ممالک مل کر کیسے ترقی کرسکتے ہیں جبکہ چین کی خو شحا لی حا صل کر نے کے طر یقہ کا ر نے ہمیں متاثر کیا۔
بزنجو کے مطابق وفد نے چینی سفارت خانے کا دورہ کیا جہاں انہوں نے چین کی جدید کاری کے راستے، گلوبل ڈیویلپمنٹ اینی شیٹو، گلوبل سیکورٹی اینی شیٹو، گلوبل سولائزیشن اینی شیٹو اور پاکستان میں چینی منصوبوں بالخصوص سی پیک بارے بر یفنگ میں شر کت کی۔
بزنجو نے کہا کہ ان اقدامات اور منصوبوں کے بارے میں جاننے کے بعد مجھے چین اور چینی عوام کی بہتر تفہیم حاصل ہوئی ۔ بزنجو اس سے قبل یونیورسٹی میں چین کی مالی اعانت سے اسکالرشپ حاصل کر چکے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ نہ صرف چین کے مستقبل کو دیکھ رہے ہیں بلکہ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کسی کو بھی پیچھے نہ چھوڑتے ہوئے سب کو ترقی کرنی چاہئے۔
وفود نے بات چیت سے لطف اٹھایا اور چینی سفارتکاروں کے ساتھ خیالات کا تبادلہ کیا اور انہیں بلوچستان بالخصوص گوادر میں سی پیک منصوبوں کی صورتحال سے آگاہ کیا۔
گوادر یونیورسٹی کے انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ایک طالب علم رضوان اصغر نے شِنہوا سے بات چیت میں کہا کہ چینی بہت اچھے لوگ ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ان کے چہروں پر ہمیشہ مسکراہٹ ہوتی ہے اور ان کی مہمان نوازی بہت اچھی ہوتی ہے۔
پاکستانی وفود نے چین کی سرمایہ کاری بالخصوص کارپوریٹ سماجی ذمہ داری جیسے سولر پینلز، لیپ ٹاپس، صحت کی سہولیات، ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ وغیرہ کی تقسیم کے تحت ان کی کوششوں کو سراہا۔
انہوں نے تعلیمی وظائف پر چین کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا جو ان کے خیال میں بلوچستان کے نوجوانوں کے لئے بہت مددگار ہیں اور انہوں نے امید ظاہر کی کہ مستقبل میں اس طرح کے پروگرامز کا دائرہ کار مزید وسیع کیا جائے گا۔
گوادر یونیورسٹی میں طلبا امور کی ڈائریکٹر سعدیہ نصیر نے چینی سفارتکاروں کو بتایا کہ اب میں چینی یونیورسٹیز سے سیکھنے کے لیے اپنی استعداد کار بڑھانے اور پیشہ ورانہ ترقی کے لیے چین کا دورہ کرنے کا موقع چاہتی ہوں تاکہ میں ایک اچھی استانی بن سکوں۔
بزنجو نے کہاکہ دوسری طرف پاکستان کی معیشت کو اجاگر کرتے ہوئے چینی دوستوں نے ہمیں بتایا کہ کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی میں نوجوانوں کا سب سے اہم کردار ہوتا ہے۔
انہوں نے چینی سفارت کاروں کے حوالے سے کہا کہ ایک ملک اس وقت معاشی ترقی حاصل کرتا ہے جب اس کے نوجوان متحرک اور ہنرمند بنیں۔
وفود نے آل پاکستان چائنیز انٹرپرائزز ایسوسی ایشن (اے پی سی ای اے) کے اراکین سمیت پاکستانی وزارت خارجہ میں چینی ڈیسک کے عہدیداروں سے بھی ملاقاتیں کیں اور اسلام آباد میں قائم نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز میں کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے اس کی فیکلٹی اور انتظامیہ سے بھی بات چیت کی۔
بزنجو نے کہا کہ اے پی سی ای اے میں مصروفیت بہت نتیجہ خیز رہی ہے کیونکہ انہیں اس سے بہت سارے کاروباری خیالات ملے ہیں اور اب وہ مستقبل میں بلوچستان میں ان کی تلاش میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
گروپ نے چین کی مالی اعانت سے چلنے والے ہمدرد انہ گھر اسلام آباد چائنہ پاکستان یوتھ ون ہارٹ سٹیپ اینڈ کیور ہوم کا بھی دورہ کیا جہاں یتیم بچوں، طویل مدتی بیماریوں میں مبتلا اور طویل مدتی علاج کے لیے ہسپتالوں میں داخل مریضوں کے تیمارداروں کو مفت رہائش، کھانا اور تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔
بز نجو نے کہا کہ میرے لئے سب سے زیادہ متاثر کن لمحہ اس جگہ کا دورہ کرنا تھا جہاں چینی شہری یتیموں اور دیگر بچوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ میں نے انہیں اپنا رابطہ نمبر دیا اور کہا کہ میں اپنے آبائی شہر میں بھی اس کی برانچ کھولنا چاہتا ہوں۔
چینی سفارت خانے میں وانگ شینگ جی نے کہا کہ یہ سال گوادر بندرگاہ کے لیے نتیجہ خیز سال ہے کیونکہ اس سال نیا بین الاقوامی ہوائی اڈہ قائم کیا جائے گا اور ڈی سیلینیشن واٹر پلانٹ بھی تعمیر کیا جائے گا۔
وانگ نے کہاکہ چین اور پاکستان کی حکومتوں اور خاص طور پر مقامی لوگوں کی مشترکہ کوششوں سے ہم اس خواب کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں