دوحہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تاریخی امن معاہدے پر دستخط، سرحدی استحکام اور تعاون کے نئے دور کا آغاز

دوحہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تاریخی امن معاہدے پر دستخط، سرحدی استحکام اور تعاون کے نئے دور کا آغاز
*دوحہ: وزیر دفاع خواجہ آصف کی قیادت میں افـغان طالبان کے ساتھ مذاکرات جاری*

پاکستان اور طالبان وفود کے درمیان دوحہ میں مذاکرات جاری ہیں، پاکستانی وفد کی قیادت وزیر دفاع خواجہ آصف کررہے ہیں جب کہ مشیر قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک بھی وفد میں شامل ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ افغان وفد کی سربراہی عبوری وزیر دفاع مـلا یعقـوب کررہے ہیں، افـغان وفد میں طالبان کے انٹیلی جنس چیف مـولوی عبدالحق بھی شریک ہیں۔
ذرائع کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات قطر کے انٹیلی جنس چیف کی میزبانی میں کیے جارہے ہیں، جس میں پاکستان، دراندازی کے یک نکاتی ایجنڈے پر بات کررہا ہے۔

دوحہ (ریاستِ قطر) میں پاکستان اور امارتِ اسلامی افغانستان کے درمیان خطے میں پائیدار امن، استحکام اور باہمی احترام پر مبنی پاکستان۔افغانستان امن معاہدہ طے پا گیا
قطر کی میزبانی میں ہونے والے ان مذاکرات کے نتیجے میں دونوں برادر اسلامی ممالک نے سرحدی امن، انسدادِ دہشت گردی، تجارت اور انسانی تعاون سے متعلق چھ دفعات پر اتفاق کیا

معاہدے کی اہم شقیں:
معاہدے کے مطابق چمن، ٹورخم اور غلام خان سمیت تمام سرحدی علاقوں میں فائرنگ یا اشتعال انگیزی فوری طور پر بند کی جائے گی

دونوں ممالک نے مشترکہ سرحدی رابطہ مرکز (Joint Border Coordination Office) کے قیام پر اتفاق کیا جو سرحدی امور میں براہِ راست رابطے اور اعتماد سازی کا ذریعہ بنے گا

افغانستان نے یقین دہانی کرائی کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف کسی گروہ کو استعمال نہیں کرنے دی جائے گی، جبکہ پاکستان نے افغان مہاجرین کے ساتھ انسانی و اسلامی اصولوں کے مطابق تعاون جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا
دونوں ممالک نے تحریک طالبان پاکستان (TTP) اور دیگر غیر ریاستی گروہوں کے خلاف معلومات کے تبادلے اور مشترکہ کارروائیوں پر بھی اتفاق کیا

تجارتی تعلقات کے فروغ کے لیے امن کاریڈورکے قیام اور عام شہریوں، تاجروں اور مریضوں کے لیے خصوصی پاس سسٹم متعارف کرانے پر بھی اتفاق ہوا تاکہ آمد و رفت محفوظ اور آسان بنائی جا سکے

میڈیا کے حوالے سے طے پایا کہ دونوں ممالک کے ترجمان اور ادارے ایک دوسرے کے خلاف اشتعال انگیز بیانات سے گریز کریں گے، اور باہمی احترام پر مبنی پیغامات کو فروغ دیا جائے گا

معاہدے کی نگرانی اور میزبانی ریاستِ قطر کرے گی جبکہ چین اور ایران بطور ضامن ممالک اس کی حمایت کریں گے۔
یہ معاہدہ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا اور ابتدائی طور پر دو سال کے لیے قابلِ عمل رہے گا، جو باہمی رضامندی سے مزید دو سال کے لیے توسیع پذیر ہو سکے گا

دوحہ مذاکرات، پہلا دور مکمل!
پاکستان اور افغانستان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع ہونے والے مذاکرات کا پہلا دور مکمل ہو چکا ہے، جس میں دونوں فریقین نے پانچ گھنٹے سے زائد وقت تک تفصیلی بات چیت کی۔ پاکستانی وفد کی قیادت وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کی، مشیرِ قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک بھی ان کے ہمراہ تھے۔ جبکہ افغان وفد کی سربراہی عبوری وزیر دفاع ملا یعقوب نے کی، جس میں افغان انٹیلی جنس چیف مولوی عبد الحق بھی شریک تھے۔ مذاکرات کا اگلا دور کل بروز اتوار ہوگا۔ یہ ملاقات اس وقت ہو رہی ہے، جب سرحدی جھڑپوں، فضائی حملوں اور دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی بداعتمادی نے خطے میں ایک خطرناک صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔ یہ امر قابلِ غور ہے کہ مذاکرات کے انعقاد سے قبل دونوں ممالک کی افواج کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں، جن میں درجنوں جانوں کا نقصان ہوا۔ اسپن بولدک، کرم، اور شمالی وزیرستان جیسے حساس علاقوں میں جوابی حملوں، فضائی کارروائیوں اور بمباری نے فضا میں مزید کشیدگی بھر دی۔ تاہم، قطر کی ثالثی سے پیدا ہونے والا مکالمے کا یہ موقع خطے کے لیے امید کی ایک کرن بن کر سامنے آیا ہے۔ اب یہ فریقین پر منحصر ہے کہ وہ اس موقع کو ضائع کرتے ہیں یا اسے اپنے عوام کے امن، ترقی اور خوشحالی کی بنیاد بناتے ہیں۔ پاکستان کا مؤقف بالکل واضح ہے کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور گل بہادر گروپ افغانستان سے کارروائیاں کرتے ہیں اور ان کے پاس اس کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ پاکستانی حکام کے مطابق نہ صرف عسکری حملے بلکہ بھتہ خوری کی کالیں بھی افغانستان سے آتی ہیں۔ دوسری جانب افغان حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کی شکایات پر کارروائیاں کی گئی ہیں اور وہ کسی بھی غیر ریاستی گروہ کو پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ تاہم، زمینی حقیقت اس بات کی متقاضی ہے کہ دونوں فریقین ان بیانات کو عملی اقدامات میں بدلیں، کیونکہ صرف الفاظ سے سرحدی امن قائم نہیں ہوتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات ہمیشہ حساس نوعیت کے حامل رہے ہیں۔ کبھی کابل کی جانب سے “اسٹرٹیجک ڈیپتھ” کی پالیسیوں پر اعتراضات اٹھائے گئے تو کبھی اسلام آباد کو “دہشت گردوں کی پناہ گاہ” قرار دیا گیا۔ لیکن دونوں کے درمیان سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ یہ دو برادر اسلامی ممالک ہیں، جنہیں ایک دوسرے سے دور رہنے کی نہیں بلکہ قریب آنے کی ضرورت ہے۔ ان کی سرحدیں مشترک ہیں، ثقافت ایک دوسرے میں رچی بسی ہے اور دونوں کے عوام مذہب اور تاریخ کے علاوہ خونی رشتوں میں بھی بندھے ہوئے ہیں۔ اگر یہ دونوں ممالک جنگ کی راہ پر چل پڑے تو اس کے نتائج نہ صرف ان کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے تباہ کن ہوں گے۔ جنگ کبھی بھی مسائل کا حل نہیں رہی۔ افغانستان نے چالیس سال مسلسل جنگ میں صرف لاشیں، ملبہ اور مہاجرین دیکھے ہیں۔ پاکستان نے بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسی ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دی اور اربوں ڈالر کا معاشی نقصان اٹھایا۔ اگر دونوں ملک ایک دوسرے سے لڑیں گے تو فائدہ صرف ان دشمن قوتوں کو ہوگا جو ہمیشہ چاہتے ہیں کہ مسلم دنیا اندرونی انتشار میں مبتلا رہے۔ بھارت، جو افغان سرزمین کے ذریعے پراکسی نیٹ ورکس چلاتا رہا ہے، یقیناً ایسے حالات میں خوش ہو گا۔ اسی لیے اب وقت آگیا ہے کہ اسلام آباد اور کابل دونوں سمجھیں کہ وہ دشمن نہیں بلکہ ایک دوسرے کے قدرتی اتحادی ہیں۔ قطر میں ہونے والے یہ مذاکرات اگرچہ ابتدائی ہیں، مگر ان کی علامتی اہمیت بہت بڑی ہے۔ اگر فریقین خلوصِ نیت سے اپنے خدشات دور کرنے کی کوشش کریں، تو یہ عمل مستقبل میں ایک جامع سرحدی امن معاہدے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ افغانستان کے اگر کوئی تحفظات ہیں تو انہیں دور کرے اور تعاون کی پالیسی اپنائے، جبکہ افغان حکام کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کے سیکورٹی خدشات حقیقی ہیں۔ دہشت گرد گروہوں کے لیے کوئی نرم گوشہ رکھنا دونوں ممالک کے لیے زہرِ قاتل ہوگا۔ حق تعالیٰ جل شانہ کا بھی یہی حکم ہے کہ کشیدگی کے وقت مسلمان فریقوں کو باہمی صلح صفائی سے کام لینا چاہئے۔ قرآن کہتا ہے: “اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو۔” (سورۃ الحجرات، آیت نمبر 9) پاکستان اور افغانستان کے رہنمائوں کو یہ آیت حرزِ جاں بنانی چاہیے۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کے حالیہ بیان میں جو سخت لہجہ نظر آیا، اس کے بجائے سفارتی نرمی زیادہ سود مند ثابت ہو سکتی ہے۔ افغانستان پر بمباری یا سرحدی حملے وقتی تسکین تو دے سکتے ہیں، مگر دیرپا امن پیدا نہیں کرتے۔ افغانستان کے اندرونی حالات اب بھی غیر مستحکم ہیں اور ایک بڑی آبادی غربت، بے روزگاری اور معاشی بحران سے دوچار ہے۔ ایسے ملک پر دباؤ ڈالنے کے بجائے بہتر ہے کہ اسے انگیج کر کے ایک مشترکہ انسدادِ دہشت گردی میکنزم بنایا جائے، جس میں دونوں ممالک کی انٹیلی جنس اور سیکورٹی ایجنسیاں مربوط انداز میں کام کریں۔ خطے کے امن کا مستقبل اسی بات پر منحصر ہے کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کو دشمن نہیں، بلکہ بھائی سمجھ کر چلیں۔ دونوں ممالک اگر صرف دو قدم پیچھے ہٹ کر سوچیں تو سمجھ آئندہ راستہ صاف ہے، امن، تجارت، ثقافتی تبادلے اور عوامی روابط۔ جنگ اور انتقام کی راہ پر چلنے والے کبھی منزل نہیں پاتے۔ دوحہ میں کھلنے والا یہ دروازہ اگر خلوص اور تدبر سے سنبھال لیا جائے تو یہ آنے والے برسوں کے لیے جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کی بنیاد بن سکتا ہے۔ اگر یہ موقع ضائع ہوا تو تاریخ ایک بار پھر ان دونوں ممالک کو یاد دلائے گی کہ دشمن سرحد کے پار نہیں، بلکہ دلوں کے اندر کی نفرتوں میں چھپا ہوتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں