رپورٹ: رانا تصدق حسین
اسلام آباد – پاکستان کے قومی شاہراہوں کے سب سے بڑے ادارے، نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے)، جو کبھی ترقی کی علامت سمجھا جاتا تھا، آج بدانتظامی، سیاسی مداخلت اور بیوروکریسی کی گرفت میں دم توڑ رہا ہے۔
این ایچ اے کی زوال پذیر کہانی کا مرکز نیشنل ہائی وے کونسل ہے۔ پارلیمنٹ نے اس کونسل کو ادارے کی اعلیٰ ترین پالیسی ساز اور نگرانی کرنے والی اتھارٹی کے طور پر قائم کیا تھا تاکہ این ایچ اے کو بیوروکریسی کے اثر و رسوخ سے بچایا جا سکے۔ اس کے ساتھ نیشنل ہائی وے ایگزیکٹو بورڈ کو روزمرہ کے انتظامی اور مالی معاملات چلانے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔
پارلیمنٹ کا وژن – وزارت کے قبضے میں
کاغذ پر این ایچ سی ایک طاقتور ادارہ ہے۔ اس میں وفاقی و صوبائی نمائندے، ماہرین اور پالیسی ساز شامل ہیں۔ لیکن حقیقت میں یہ کونسل محض ربڑ اسٹیمپ بن چکی ہے۔ اجلاس کم ہوتے ہیں، ایجنڈا پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے اور فیصلے مواصلات کی وزارت کے حکم پر ہوتے ہیں۔ ایگزیکٹو بورڈ بھی بے اختیار ہو چکا ہے۔
ایس او ای اصلاحات – ایک کھوکھلا وعدہ
این ایچ اے کو اسٹیٹ اونڈ انٹرپرائز (SOE) میں تبدیل کرنے کو شفافیت اور کارکردگی کا ماڈل قرار دیا گیا تھا۔ لیکن حقیقت میں یہ ایک مالیاتی جادوگری نکلی۔ اس نے وزارت کو مزید طاقتور بنا دیا اور ادارے کی خودمختاری ختم کر دی۔ نتیجہ یہ ہے کہ:
من پسند افسروں اور ڈیپوٹیشن پر لائے گئے افراد کی تعیناتیاں۔
بائی پاس کنٹریکٹس اور خفیہ مالی سودے۔
میرٹ کی جگہ بیوروکریسی کی اجارہ داری۔
میرٹ کے بغیر تعیناتیاں
سب سے نمایاں خلاف ورزی شہریار سلطان کی بطور سی ای او این ایچ اے تعیناتی ہے، جو این ایچ اے اسٹیٹ اونڈ انٹرپرائزز ایکٹ 2024 کی صریح خلاف ورزی ہے۔
اسی طرح منصور اعظم، ممبر امپلی مینٹیشن، اپنی ٹیم سمیت ایسے عہدوں پر فائز ہیں جو این ایچ اے کے منظور شدہ آرگنوگرام میں موجود ہی نہیں۔ ان ’’غیرقانونی اسامیوں‘‘ کو کوڈل پروپوزل اور مالی فیصلے آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
ملازمین پر دباؤ، حوصلے کا خاتمہ
بیوروکریسی اور سیاسی بھرتیوں کے قبضے کے دوران، این ایچ اے کے مستقل ملازمین شدید دباؤ اور مایوسی کا شکار ہیں۔ سیکرٹری مواصلات کے جبر اور انتظامیہ کی نااہلی نے ادارے کا ماحول زہریلا بنا دیا ہے۔
عدلیہ کی خاموشی – ایک خطرناک خلا
عدلیہ اپنے اندرونی بحران میں الجھی ہوئی ہے اور عوامی مسائل پر خاموش ہے۔ اس خلا نے کرپٹ عناصر کو مزید بے خوف بنا دیا ہے۔
قومی ادارہ داؤ پر
این ایچ اے محض ایک محکمہ نہیں بلکہ پاکستان کی معیشت اور تجارت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اس کا زوال ایک قومی سانحہ ہے۔
فوری مداخلت کی ضرورت
اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اعلیٰ سطح پر فوری مداخلت کے بغیر این ایچ اے کو بچانا ناممکن ہے۔
عوامی مفاد میں ضروری ہے کہ فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر، وزیرِاعظم شہباز شریف اور چیف جسٹس یحییٰ آفریدی فوراً آگے بڑھیں اور مواصلات و ٹرانسپورٹ کے شعبے کو نااہل اور کرپٹ قیادت کے پنجے سے نجات دلائیں۔