بادغیس میں دو قاتلوں کو قصاص کر دیا گیا جبکہ ایک اور قاتل کو صوبہ فراہ کے ایک اسپورٹس اسٹیڈیم میں قصاص کیا گیا

افغانستان میں الہی حکم قصاص کا نفاذ اور انصاف کی فراہمی کی مثال

کابل۔ (خصوصی رپورٹ)
امارت اسلامیہ افغانستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے قصاص کے شرعی حکم کو نافذ کرتے ہوئے صوبہ بادغیس میں دو قاتلوں کو قصاص کر دیا گیا جبکہ ایک اور قاتل کو صوبہ فراہ کے ایک اسپورٹس اسٹیڈیم میں قصاص کیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق پہلا مجرم سلیمان ولد محمد رسول نے تین افراد کو فائرنگ کرکے قتل کیا تھا جن میں غلام نبی ولد محمد، بی بی عیدی گلہ بنت غلام نبی اور بی بی زرگلہ بنت شراف الدین شامل تھے۔ یہ المناک واقعہ بادغیس کے ضلع تگاب علم کے گاؤں چاہ جلال میں پیش آیا تھا۔
دوسرا قاتل، حیدر ولد مجنون، نے بادغیس کے ضلع درہ بوم کے گاؤں نخچریستان میں محمد شاہ ولد محمد الدین کو فائرنگ کرکے قتل کیا تھا۔
امارت اسلامیہ کی سپریم کورٹ کی متعلقہ تینوں عدالتوں (ابتدائیہ، مرافعہ اور تمیز) نے ان دونوں مقدمات کا بار بار جائزہ لینے کے بعد شرعی سزاؤں کی توثیق کی۔ بعد ازاں، سپریم کورٹ کے فیصلے امارت اسلامیہ کے سپریم لیڈر امیرالمومنین شیخ الحدیث مولوی ھبۃ اللہ اخندزادہ حفظہ اللہ کے سامنے ان کی منظوری کے لیے پیش کیے گئے، جنہوں نے ان کی منظوری دے دے۔
امیرالمومنین (حفظه‌الله) نے بھی آخری احتیاط کے طور پر ان امور پر غیر معمولی تحقیقات کیں۔ جب کہ متاثرہ خاندانوں سے بارہا معافی اور صلح کے لئے رجوع کیا گیا تاہم ان کے انکار کے بعد قاتلوں پر قصاص کے شرعی قانون کے نفاذ کا حکم دیا گیا اور ملک کی سپریم کورٹ کو صوبہ بادغیس کے دارالحکومت میں عوام کے ایک اجتماع میں ان قوانین کو نافذ کرنے کی ہدایت کی گئی۔
چیف جسٹس شیخ عبدالحکیم (حقانی) کی ہدایت پر ایک اعلیٰ عدالتی وفد نے صوبہ بادغیس کا دورہ کیا جس میں بادغیس اور جنوب مغربی زون کے اعلیٰ عدالتی حکام، سرکاری افسران اور ہزاروں کی تعداد میں عوام قصاص کے اجتماع میں شریک ہوئے۔
فراہ میں بھی قصاص کا نفاذ:
سپریم کورٹ نے یہ بھی اعلان کیا کہ صوبہ فراہ سے تعلق رکھنے والے ایک قاتل کو بھی قصاص کیا گیا، جس نے ایک شہری کو قتل کیا تھا۔ اسے فراہ شہر کے اسٹیڈیم میں قصاص کیا گیا، جس کی منظوری اعلیٰ حکام اور مقتول کے لواحقین کی طرف سے معافی نہ ملنے کے بعد دی گئی۔
قصاص کی شرعی اور معاشرتی اہمیت:
سپریم کورٹ کے جاری کردہ بیان میں واضح کیا گیا کہ قصاص، انتقام نہیں بلکہ الہی عدل کا نظام ہے، جس کا مقصد معاشرے کو ظلم، قتل اور فساد سے پاک کرنا ہے۔ قرآن کریم کی سورۃ البقرہ کی آیت 179 کی روشنی میں یہ حکم جاری کیا گیا:
قال الله تبارك وتعالى: وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاة يا أولي الألباب لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة: ۱۷۹)
اور تمھارے لیے بدلہ لینے میں ایک طرح کی زندگی ہے اے عقلوں والو! تاکہ تم بچ جاؤ۔
اللہ تعالیٰ قصاص کی مشروعیت میں پنہاں عظیم حکمت کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿ وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ﴾ ” اور تمہارے لیے قصاص میں زندگانی ہے۔“ یعنی قصاص کے قانون سے خون محفوظ ہوجاتے ہیں اور شقی القلب لوگوں کا قلع قمع ہوجاتا ہے، کیونکہ جب قاتل کو معلوم ہوگا کہ قتل کے بدلے اس کو قتل کردیا جائے گا تو اس سے قتل کا ارتکاب ہونا مشکل ہے اور جب دوسرے لوگ مقتول کے قصاص میں قاتل کو قتل ہوتا دیکھیں گے تو دوسرے لوگ خوفزدہ ہو کر عبرت پکڑیں گے اور قتل کرنے سے باز رہیں گے۔ اگر قاتل کی سزا قصاص (قتل) کے سوا کچھ اور ہوتی تو اس سے شر (برائی) کا انسداد اس طرح نہ ہوتا جس طرح قتل کی سزا سے ہوتا ہے اور اسی طرح تمام شرعی حدود ہیں کہ ان سب میں عبرت پذیری اور انسداد شر کے ایسے پہلو ہیں جو اس اللہ تعالیٰ کی حکمت پر دلالت کرتے ہیں، جو نہایت دانا اور بڑابخشنے والا ہے۔
و ايضاً قال الله تعالى: وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيْهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِف فِي الْقَتْلِ – إِنَّهُ كَانَ مَنصُورًا (الاسراء: ۳۳)
اور جو شخص قتل کردیا جائے، اس حال میں کہ مظلوم ہو تو یقیناً ہم نے اس کے ولی کے لیے پورا غلبہ رکھا ہے۔ پس وہ قتل میں حد سے نہ بڑھے، یقیناً وہ مدد دیا ہوا ہوگا۔

افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مکمل اسلامی قوانین نافذ ہیں اور عوام اس نظام سے خوش اور مطمئن ہیں۔ اس کی بدولت ملک میں امن و امان کی مثالی فضا قائم کی گئی ہے۔
تاریخی تناظر:
2021 میں امارت اسلامیہ کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد اب تک دس افراد پر قصاص کا شرعی حکم نافذ کیا گیا ہے۔ اس سے قبل غزنی، لغمان، جوزجان، اور پکتیا میں بھی قاتلوں کو قصاص کیا جا چکا ہے۔
قصاص کا نفاذ افغانستان میں اسلامی عدل کی بحالی کا واضح مظہر ہے۔ یہ اقدامات نہ صرف شرعی تعلیمات کے عین مطابق ہیں بلکہ عوام میں انصاف کے قیام اور جرائم کی روک تھام کے لیے بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ امارت اسلامیہ کا یہ مؤقف ہے کہ شریعت پر مبنی قانون ہی ملک میں پائیدار امن کی بنیاد ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں