کراچی پریس کلب اور آرٹس کونسل کے انتخابات نے شہر میں ہلچل مچا رکھی ہے کس کا پلڑا بھاری ہے کون جیتے گا ؟ رپورٹ آغا خالد

کراچی پریس کلب اور آرٹس کونسل کے انتخابات نے شہر میں ہلچل مچا رکھی ہے
کس کا پلڑا بھاری ہے کون جیتے گا ؟
پڑھیے سر دھنیے،

کراچی (آغا خالد)
سال کا آخر بڑے رنگ دکھاتاہے مگر کمبخت سارا سال رلائے بھی تو آخری دنوں میں خوب رونقیں لگاکر سال بھر کے دکھ دھو ڈالتاہے ہمیشہ کی طرح امسال بھی (کبھی) روشنیوں کےشہر کراچی کے دو بڑے اداروں کے انتخابات کا موسم آچکاہے اور دسمبر ہمیشہ کی طرح تبدیلیوں کا مہینہ ہے جس میں دونوں اداروں “آرٹس کونسل” اور “کراچی پریس کلب” میں خوب انتخابی رونقیں لگی ہوئی ہیں، آرٹس کونسل میں کامیابی کی کنجی اس کے روح رواں احمد شاہ کے پاس ہے جبکہ کراچی پریس کلب کی یہی کنجی دستوری گروپ جسے جماعتی گروپ بھی کہا جاتاہے کے پاس ہے مگر پھر بھی دونوں اداروں کے سرپھرے رونقیں لگانے سے باز نہیں آتے اس لیےادھر احمد شاہ کے مقابل شہر کی معروف سیاسی و سماجی شخصیت اور پی ٹی آئی کراچی کے سابق صدر اشرف قریشی کو بطور نائب صدر کی دوڑ میں لے آئے ہیں جبکہ اس پینل کے اصل روح رواں مبشر میر اور نجم الدین شیخ (سکھرین والے) ہیں برسوں سے احمد شاہ گروپ کا مقابلہ کرہے ہیں پر ہمت نہیں ہاری ہر بار اک نیا تجربہ کرتے ہیں مگر پھر بھی رہ جاتے ہیں جبکہ دوسری جانب احمد شاہ نے بھی بڑا تگڑا گروپ انتخابی دوڑ میں اتاراہے ورنہ قبل ازیں تو وہ اپنی ذات کے گرد ہی طواف کرتے تھے ان کے پینل میں ادی نورالھدا شاہ، محترمہ قدسیہ اکبر، صحافت کے دو معتبر نام غازی صلاح الدین اور اخلاق احمد فنکار برادری سے منور سعید اور بعض دیگر شامل ہیں اسی طرح کراچی پریس کلب میں اختیارات کے مجموعے کا نام سیکریٹری کا عہدہ ہے اور جب سے جماعتی گروپ کی کلب پر گرفت یکطرفہ ہوئی ہے وہ یہ عہدہ اپنے پاس رکھتے ہیں اس مرتبہ یہ قرعہ فال “سہیل افضل” کے نام کا نکلا ہے
https://www.facebook.com/talashdigital/
وہ بلا کے ذہین ،بہادر اور منہ پھٹ مشہور ہیں انہیں منافقت نہیں آتی اس لیے ان کے دوست بھی کم ہیں مگر واضع اکثریت کے گروپ کی نامزدگی ہی ان کی یقینی کامیابی کی ضمانت ہے سہیل روزنامہ جنگ کے مایہ ناز رپورٹر ہیں ان کی وجہ شہرت کامرس رپورٹنگ پر ان کی مکمل گرفت ہے ان کی کئی اسٹوریوں نے شہر کے کاروباری حلقوں میں دھوم مچائی ہے، گزرے 13 سالوں میں دستوریوں کے صاحبان اقتدار نے کئی مثالی کارنامے انجام دیئے میں ان کی اعلی ظرفی پر حیران ہوں انہوں نے سیاسی اتار چڑھائو سے قطع نظر ہمیشہ ہمارے گروپ کو اہمیت دی جبکہ ہمارے والوں کے دور میں لفظ “جماعتی” ایک گالی بنادیا گیا تھا اور سر عام ان پر طنز کے نشتر چلائے جاتے تھے ابھی حال ہی میں ہمارے ایک سینیر خورشید تنویر کے ساتھ دستوریوں نے ایک شام ان کے نام سے منائی حالانکہ خورشید تنویر جماعتیوں پر تنقید کے حوالے سے “تیغ قلم” کے سپاہی تھے اور بغیر لگی لپٹی کے تاریخ کے اوراق یوں پلٹتے کہ بندہ ان کی گفتار کے سحر میں کھو جاتا تھا اور دستوریوں کی دستار دیکھتے ہی دیکھتے تار تار ہوجاتی تھی زخم خوردہ دستوری طاقت کے گھوڑے پر سوار ہوکر بھی بھائی چارے کی وہ مثالیں قائم کرہے ہیں کہ تنقید کے تیر ندامت سے خود ہی۔۔۔۔۔۔اسی طرح انہوں نے ہمارے گروپ کے ہر دلعزیز فاران گروپ کو ہمیشہ صدارت ٹرے میں سجاکر پیش کی اور امتیاز فاران گروپ کی جانب سے پیش کیے گئے صدارتی امیدوار کے غلاف میں جھانک کر دیکھنے کی بھی کبھی کوشش نہ کی اور پوری سچائی سے اسے کامیاب بھی کروایا، دستوریوں نے ایک اور شاندار روایت قائم کی کہ ان کی طرف سے جس نے ایک دفعہ سیکریٹری کی معیاد پوری کی دوبارہ نیست۔۔۔ جبکہ ہمارے ہاں اس کے بالکل بر عکس ہورہاہے ہم آج بھی کاغذات نامزدگی کے وقت آمنے سامنے دو اسٹیج سجاکر بھی نادم نہ ہورہے تھے اور درجن بھر صدارت کے امیدوار کالرز کو کلف لگائے گردنیں تانے گھوم رہے ہیں جبکہ کے یو جے اور اس سے متعلق گروپ واضع فیصلہ کرچکاہے مگر شوقین بدایونی ہیں کہ خم ٹھوک کر کھڑے ہیں حیرت تو یہ ہے دستوریوں سے شدید نفرت کے نعرے لگانے والے گروپ چمپیئن صدارت کے خود ساختہ امیدوار بنے ہوے ہیں اور کشکول لیے انہیں دستوریوں کے آگے صدارت کی خیرات مانگ رہے ہیں واللہ۔۔۔کیا عروج زوال کی یہ داستان ہے مگر ایسے میں شاباش ہے دستوریوں کو کہ جو آج بھی اسی اصول پر ڈٹے ہوے ہیں کہ جسے فاران گروپ نامزد کرے گا ہم قبول کریں گے کلب کی راہ داریوں میں اقتدار کی جنگ آخری مراحل میں ہے اس لیے بقیہ روئداد اگلی قسط میں (یار زندہ صحبت باقی)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں