لاہور ہائیکورٹ ہتک عزت قانون کوکالعدم قرار دلانے کےلئے صحافیوں کی درخواست کی سماعت عدالت نے وفاقی حکومت، حکومت پنجاب اور دیگر فریقین کونوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا

لاہور ہائیکورٹ

ہتک عزت قانون کوکالعدم قرار دلانے کےلئے صحافیوں کی درخواست کی سماعت

عدالت نے وفاقی حکومت، حکومت پنجاب اور دیگر فریقین کونوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا

عدالت نے قانون معطل کرنے کے لئے دائر حکم امتناعی کی درخواست پر بھی جواب طلب کرلیا

جسٹس امجدرفیق نے سماعت کی

اگر قانون کافریم ہی غلط ہے تو قانون کیسے رہ سکتا ہے۔عدالت

بیس دن بعد ویسے ہی قانون بنناتھاتو اتنی ایمرجنسی کیاتھی کہ قائم مقام گورنرنے دستخط کردئیے۔عدالت

درخواست گزارلاہور پریس کلب کےصدرارشد انصاری عدالت پیش ہوئے

ارشد انصاری کےوکیل خواجہ طارق رحیم نے دلائل دئیے

ٹربیونل کےپاس عدالتی اختیارات ہی نہیں ہیں۔خواجہ طارق رحیم

ٹربیونل کی تمام ترکاروائی آئین کےمنافی ہے۔خواجہ طارق رحیم

آئین کےآرٹیکل دس اے کےتحت ہرشہری کو شفاف ٹرائل کا حق ہے۔خواجہ طارق رحیم

اس قانون کےذریعے چیف جسٹس اور عدلیہ کے اختیارات بھی سلب کرلئے گئے۔خواجہ طارق رحیم

چیف جسٹس سے مشاورت کےبعد بھی ٹربیونل مرضی کےلگائے جاتے ہیں تو کیااثرات ہوں گے۔جسٹس امجد رفیق

اس حوالے سے تو الیکشن ٹربیونل کاتازہ حکم نامہ آگیاہے۔خواجہ طارق رحیم

جسٹس شاہد کریم کے فیصلے سے تو حکومت مرضی سے جج بھی ٹرانسفر نہیں کرسکتی۔خواجہ طارق رحیم

کیا یہ قانون ہونا چاہئیےیانہیں ہونا چاہئیے۔عدالت کا استفسار

ایک پنڈورا بکس کھلا ہوا ہے کیا اسے کھلا چھوڑ دیاجائے۔عدالت

قانون کےاطلاق کےطریقہ کار پربات ہوسکتی ہے یہ مزید بہتر ہونا چاہئیے۔عدالت

قانون کے ہونے پراعتراض نہیں مگر یہ ایک پیشے کو ٹارگٹ کیاجارہاہے۔وکلاء کےدلائل

یہ قانون کسی ایک پیشے سے کو ریگولیٹ کرنے کےلئے نہیں ہے۔عدالت

اب تو ہرایک صحافی بناہوا ہے۔عدالت

جس کی جومرضی چاہے تو بول دیتاہے۔عدالت

یہ بات درست ہےکہ کسی ایک پیشے کوریگولیٹ کرنے کےلئے قانون نہیں ہونا چاہئیے۔عدالت

ابھی جج فیصلہ محفوظ کرتا ہے توباہرجاکرکہاجاتا ہےکہ جج متعصب ہے۔عدالت

کیا اس معاملے کوکسی نے نہیں دیکھنا۔عدالت

اس قانون کوقائم مقائم گورنر نے دستخط کئے۔اظہر صدیق

ہتک عزت کالا قانون اور آئین سے متصادم ہے۔موقف

اس قانون کی آڑ میں صحافیوں اور عام شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کئے جانے کاخدشہ ہے۔موقف

آئین پاکستان شہریوں کے آزادی اظہارکوبنیادی حق تسلیم کرتاہے۔موقف

آزادی اظہار رائے کے بغیر جمہوری معاشرے اور شہری آزادیوں کو برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔موقف

حکومت قانون کو اپنے سیاسی مقاصد کےلئے استعمال کرکےخود ملک میں افراتفری پیدا کرناچاہتی ہے۔موقف

مہذب دنیا میں ایسے قانون کی کوئی گنجائش نہیں یے۔موقف

پیمراء، پیکا قوانین اور جرنلسٹس پروٹیکشن ایکٹ کی موجودگی میں ہتک عزت قانون امتیازی سلوک ہے۔موقف

آئین کےتحت کسی خاص طبقےکوٹارگٹ کرکے مخصوص قانون نہیں بنایا جا سکتا۔موقف

ہتک عزت قانون وفاق کاموضوع ہے اس کےلئے صوبے کو قانون سازی کا کوئی اختیار نہیں ہے۔موقف

آئین پاکستان، ملکی قوانین اور اعلی عدلیہ کے فیصلے صحافیوں کو ذرائع نہ بتانے کا تحفظ دیتے ہیں۔موقف

ہتک عزت قانون صحافیوں کے ذرائع آشکار کرنے کاپابند بناتاہےجس سے ان کی زندگیاں داوپرہیں۔موف

عدالت ہتک عزت قانون کو ماورائے آئین قرار دیتے ہوئے کالعدم کرے۔استدعا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں