امارت اسلامیہ کی دوحہ اجلاس میں عدم شرکت کا مطلب دنیا کے ساتھ تعلقات کی خرابی نہیں ہے: مولوی عبدالکبیر

کابل( بی این اے ) نائب وزیراعظم برائے سیاسی امور مولوی عبدالکبیر نے آج اپنے دفتر میں کابل میں جاپان کے سفیر تاکایوشی کرومیا سے ملاقات میں کہا کہ دوحہ اجلاس میں امارت اسلامیہ کی عدم شرکت کا مطلب دنیا کے ساتھ تعلقات کی خرابی نہیں ہے ۔
اس ملاقات میں جاپانی سفیر تاکا یوشی کرومیا نے کہا کہ جاپان اور افغانستان کے درمیان طویل تاریخی تعلقات ہیں، جاپان افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے فروغ میں دلچسپی رکھتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جاپان افغانستان اور دنیا کے درمیان تعلقات کی تشکیل اور قربت میں اہم کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔
جاپانی سفیر نے افغانستان کے لیے اپنی انسانی امداد جاری رکھنے کا بھی یقین دلایا اور کہا کہ جاپان افغانستان میں انفراسٹرکچر، ترقیاتی امور، صحت اور طبی عملے کے استعداد کار میں اضافے کے میدان مختلف منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوحہ میں اقوام متحدہ کا اجلاس افغانستان اور دیگر ممالک کے لیے بات چیت کا ایک اچھا موقع تھا اور مزید کہا کہ مستقبل میں ہونے والے اس طرح کے اجلاسوں میں افغانستان کی شرکت ضروری ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان اور اقوام متحدہ دونوں کو مثبت اقدامات اٹھانے چاہیئں تاکہ افغانستان کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار ہوسکے۔
جاپانی سفیر نے یہ بھی کہا کہ نہ صرف جاپان بلکہ تمام ممالک جانتے ہیں کہ افغانستان نے گزشتہ دو سالوں میں مختلف شعبوں نمایاں پیش رفت کی ہے، افغانستان میں ایک مضبوط مرکزی حکومت قائم ہے اور ملک کی مجموعی سیکیورٹی کو یقینی بنایا گیا ہے۔
دریں اثناء مولوی عبدالکبیر نے افغانستان کے لیے جاپان کی انسانی امداد پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ جاپان نے ہمیشہ افغانستان میں امن، استحکام اور ترقی کے شعبوں میں تعاون کیا ہے اب بھی افغانستان کے ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد میں اپنا تعاون جاری رکھے ۔
انہوں نے کہا کہ امارت اسلامیہ تمام افغانوں کو بلا تفریق خدمات فراہم کرتی ہے، تاکہ تمام شہری امداد اور سرکاری خدمات سے مستفید ہوں۔ حکومت میں پورے افغانستان کے نمائندے موجود ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ امارت اسلامیہ کی پالیسی ہے کہ افغانستان سے کسی کو خطرہ نہیں ہوگا اور کسی اور کو بھی افغان سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
نائب وزیر اعظم نے کہا کہ امارت اسلامیہ اپنی شرائط پر دوحہ اجلاس میں شرکت کے لیے تیار تھی، لیکن اجلاس کے منتظمین نے یہ موقع گنوا دیا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا کے ساتھ امارت اسلامیہ کے روابط اور تعلقات خراب ہو گئے ہیں۔

مولوی عبدالکبیر نے کہا کہ وہ آئندہ اجلاس کے لیے مذاکرات کے حوالے سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے اعلان کو مثبت طور دیکھ رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہوگی کہ اس طرح کے دیگر اجلاسوں میں مثبت اور بامعنی شرکت کی جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امارت اسلامیہ مذاکرات پر یقین رکھتی ہے اور ہر مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا: ہم تمام ممالک کے تحفظات کا احترام کرتے ہیں اور بات چیت کے ذریعے ان کے خدشات کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔
افغان حکومت کی شرکت کے بغیر دوحہ کانفرنس بے نتیجہ ختم

تبصرہ: الامارہ اردو
18 اور 19 فروری 2024 کو اقوام متحدہ کی جانب سے افغانستان پر دو روزہ کانفرنس قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوئی۔ اس کانفرنس میں یورپی ممالک، امریکہ، عرب ممالک اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک ایران، پاکستان اور چین کے خصوصی نمائندوں کے علاوہ متعدد ان افغان شخصیات کو بھی مدعو کیا گیا تھا جن کا نہ افغان عوام سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی افغان معاشرے میں کوئی جڑیں ہیں، اور نہ ہی وہ افغان حکومت کے با اثر سیاسی مخالفین میں شمار ہوتے ہیں۔ کانفرنس سے قبل اقوام متحدہ نے افغان حکومت کے نمائندوں کو شرکت کی دعوت دینے کی کوشش کی، امارت اسلامیہ نے بھی کانفرنس کو مسئلہ افغانستان کے متنازعہ نکات پر بات کرنے کا ایک اچھا موقع سمجھا۔ وہ اس کانفرنس میں افغانستان سے متعلق نتیجہ خیز بات کرنا چاہتی تھی۔ لیکن امارت اسلامیہ نے کانفرنس میں شرکت کو چند شرائط سے مشروط کیا۔ افغان حکومت کی جانب سے پیش کی جانے والی شرائط میں سے ایک اہم شرط یہ تھی کہ امارت اسلامیہ افغانستان واحد ذمہ دار فریق کے طور پر کانفرنس میں شرکت کرے گی اور یہ کانفرنس افغان وفد اور اقوام متحدہ کے درمیان تمام مسائل پر اعلیٰ سطحی بات چیت کی بنیاد فراہم کرے گا۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری ہمیشہ افغانستان کی موجودہ حکومت کے ساتھ بات چیت کو وسعت دینے پر زور دیتی رہی ہے، لیکن انہوں نے ابھی تک بات چیت کی نوعیت کا تعین نہیں کیا اور نہ ہی انہوں نے دوحہ میں امارت اسلامیہ کی شرکت کی جائز اور معقول شرائط کو قبول کیا۔ اقوام متحدہ کے اس رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے قول و عمل میں سچے نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ افغانستان کے ٹھوس زمینی حقائق کو مد نظر رکھے بغیر کانفرنس کے بنیادی ایجنڈے کے برخلاف بنیادی مسائل کی بجائے نہایت معمولی اور ہلکے مسائل پر بحث کرکے عالمی ذہنیت کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاکہ وہ افغانستان اور خطے میں مغربی مفادات کو برقرار رکھنے اور ان کے تحفظ کے لیے افغانستان کی موجودہ پرسکون صورت حال کو تشویش ناک متعارف کراکر افغانستان میں ایک نیا کھیل شروع کرسکے۔ افغانستان پر مغربی ممالک کی جارحیت نے ثابت کر دیا کہ اقوام متحدہ اور مغرب افغانستان کے پچھلے دو عشروں کے انسانی المیے اور بحران کے اصل کھلاڑی ہیں۔ اس بحران کے سبب بننے والی قوتیں افغانستان کے مسائل کا حل کس طرح اور کیوں کر پیش کرسکیں گی؟
دوحہ کانفرنس سے قبل تجزیہ کاروں نے کہا تھا کہ اگر افغان حکومت کے نمائندے اس کانفرنس میں شریک نہ ہوئے تو یہ کانفرنس اپنی اہمیت کھو دے گی اور اگر افغان حکومت نے غیر مشروط طور پر شرکت کی تو اس سے بھی افغان حکومت کے سیاسی موقف کو نقصان پہنچے گا۔
دوحہ کانفرنس کا ایک اہم مقصد فریدون سینیور اوغلو کی تجاویز پر بحث بھی تھا۔ دو روزہ بحث و مشاورت کے بعد یہ کانفرنس اس طور پر اختتام پذیر ہوئی کہ افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی کے تقرر کے معاملے پر بحث بے نتیجہ ختم ہوئی۔ اس معاملے پر شرکا کسی نتیجے پر نہیں پہنچے۔ امارت اسلامیہ کی کانفرنس میں عدم شرکت کو اقوام متحدہ نے اپنے گال پر تھپڑ سمجھا اور بجا طور پر سمجھا ہے۔ امارت اسلامیہ نے اپنی سیاسی بصیرت سے دوحہ کانفرنس میں عدم شرکت سے ثابت کردیا کہ افغانستان کا موجودہ نظام ماضی کی طرح کسی دوسری قوت کے زیر اثر نہیں ہے۔ افغان حکومت نے ڈھائی سال کی مدت میں یہ ثابت کر دیا کہ افغانستان اب گزشتہ 20 سالوں کے ناکام تجربات دہرانے کے لیے بہ طور گراونڈ استعمال نہیں ہوگا۔ امارت اسلامیہ نے اپنے عمل سے ثابت کردیا کہ وہ اپنی سیاسی پوزیشن پر پہلے کی طرح مضبوط کھڑی ہے۔ نہ اسے خریدا جاسکتا ہے اور نہ دبایا جاسکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں