تین دہائیوں سے زیادہ روزنا نوائے وقت کے ساتھ منسلک سینئر صحافی نواز رضا کا کالم روزنامہ جنگ میں بدھ سے شائع ہونا شروع ہوگیا ہے نواز رضا تقریبا سولہ سال تک راولپنڈی پریس کلب کے صدر رہ چکے ہیں وہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس دستور کے دو مرتبہ مرکزی صدر بھی رہے ہیں ان کے بھائی طارق محمود سمیر آزاد خبر رساں ادارے اینڈیپیڈنٹ نیوز آئی این پی کے چیف ایڈیٹر ہیں
نواز رضا کے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں سے گہرے مراسم ہیں وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد سے ان کے کسی زمانے میں گہرے مراسم تھے لیکن بوجوہ یہ تعلقات خراب ہوگئے مسلم لیگ نون کے چیرمین راجہ ظفر الحق اور سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے علاوہ نون لیگ کے رہنمائوں سے قریبی تعلقات ہیں
نواز رضا نےروزنامہ جنگ میں اپنے پہلے کالم میں مسلم لیگ نون کے ناراض رہنما چودھری نثار علی خان کو موضوع بحث بنایا ہے
نواز رضا کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے میں ملکی سیاست میں کچھ اہم واقعات پیش آئے جو پاکستان میں سیاسی منظر کی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جب میاں نواز شریف کی والدہ محترمہ شمیم اختر کی وفات پر چوہدری نثار علی خان میاں شہباز شریف سے اظہار تعزیت کے لئے جاتی امرا گئے تو انہوں نے اس کے لئے اس دن کا انتخاب کیا جس روز مریم نواز جنوبی پنجاب کے دورے پر تھیں۔
میاں شہباز شریف سے تعزیت سے قبل خواجہ سعد رفیق نے چوہدری نثار علی خان کے اعزاز میں ظہرانہ دیا جس میں کوئی اور مسلم لیگی رہنما مدعو نہیں تھا۔
ظہرانے کے بعد جاتی امرا میں فاتحہ خوانی کے بعد میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان ایک گھنٹہ سے زائد ’’ون آن ون‘‘ ملاقات ہوئی، اس ملاقات میں ہونے والی گفتگو تو منظر عام پر نہیں آئی تاہم مسلم لیگی ذرائع نے بتایا کہ چوہدری نثار علی خان لندن میں میاں نواز شریف کو ٹیلی فون کرکے اظہار تعزیت کریں گے۔
میاں شہباز شریف نے بھی لندن میں پیغام بھجوا دیا تھا کہ چوہدری نثار علی خان کے فون کا رسپانس دیا جائے، تاحال اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ چوہدری نثار علی خان نے میاں نواز شریف کو فون کیا ہے یا نہیں۔
ان خا کہنا ہے کہ اچانک محمد علی درانی نمو دار ہوئے جن کی کوٹ لکھپت جیل میں میاں شہباز شریف سے ملاقات ہوئی۔ ظاہر ہے ان کی ملاقات انتظامیہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہوئی اگرچہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ میاں شہباز شریف کے پاس پیر صاحب پگاڑا کا پیغام لے کر گئے ہیں لیکن واقفانِ راز کا کہنا ہے کہ ان کی ملاقات بڑوں کی اشیرباد سے ہوئی۔
اس کے بعد ان کی مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات ہوئی لیکن وہ اگلے روز اچانک فیض آباد پہنچ گئے جہاں چوہدری نثار علی خان سے ان کی ملاقات ہوئی۔
پہلے تو دونوں اطراف سے اِس ملاقات کی تصدیق نہیں کی گئی پھر خود ہی چوہدری نثار علی خان کے پولیٹکل سیکرٹری نے ملاقات کی تصدیق کر دی۔ نواز رضا کا موقف ہے معلوم نہیں سینیٹر محمد علی درانی چوہدری نثار علی خان کیلئے کس کا پیغام لے کر گئے تھے لیکن ایک بات واضح ہو گئی کہ کسی نہ کسی سطح پر کچھ ہو رہا ہے۔ انہوں نے اپنے کالم میں انکشاف کیا کہ چوہدری نثار علی خان جو پچھلے اڑھائی سال سے کسی مسلم لیگی لیڈر سے ملاقات نہیں کر رہے تھے وہ اچانک پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 4رکنی وفد جس میں رانا تنویر حسین، سردار ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق اور شیخ روحیل اصغر شامل تھے، سے ملاقات کے لئے آمادہ ہو گئے۔ اس ملاقات سے قبل مسلم لیگی رہنمائوں کی احتساب عدالت میں میاں شہباز شریف سے ملاقات کی شنید تھی۔
اس ملاقات کے بعد ہی مسلم لیگی رہنما چوہدری نثار علی خان سے ملاقات کیلئے گئے جب کہ ایک ذمہ دار مسلم لیگی رہنما نے بتایا کہ میاں شہباز شریف مسلم لیگی رہنمائوں سے چوہدری نثار علی خان اور چوہدری پرویز الٰہی کے بارے میں استفسار کرتے رہے کہ ان میں سے کون ہمارے لئے بہتر ہوگا؟ اس ملاقات کے حوالے سے ابھی تک کوئی بات منظر عام پر نہیں آئی جب راقم نے اس ملاقات کے حوالے سے بات کی تو وہ طرہ دے گئے اور کہا کہ ہم تو چوہدری نثار علی خان کے بہنوئی کی وفات پر فاتحہ خوانی کے لئے گئے تھے۔