وفاقی دارالحکومت کے عامل صحافیوں نے 4 اینکروں کی مفاد پرستی کے خلاف ڈٹ گئے افضل بٹ نے حامد میر اور عامر متین کے خلاف مہم شروع کردی

پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن پارلیمنٹ ہاوس اسلام آباد
حکومت کی طرف سے پیمرا ترمیمی ایکٹ 2023واپس لینے پر پی آر اے کی طرف سے کل کی طرح آج پھر قومی اسمبلی کی پریس گیلری سے واک آؤٹ اور پارلیمنٹ کے گیٹ نمبر ایک پر احتجاج کا اعلان ،کل سینیٹ اجلاس کی پریس گیلری سے بھی واک آوٹ کیا جائے گا آفیشل سیکرٹ ایکٹ سے بغیر وارنٹ چھاپہ مارنے کا اختیار واپس لیکر بل منظور کیا جاسکتا ہے تو پیمرا ایکٹ سے مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کی متنازعہ شق واپس لیکر باقی بل کیوں منظور نہیں کیا جاسکتا ؟پی آر اے کا حکومت ،چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی سے سوال

کیا چار اینکرز تمام تنظیموں مالکوں اور حکومت سے زیادہ طاقتور ہیں؟ سیٹھ کو بروقت تنخواہ ادا کرنے سے کس نے روکا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔مالکان کے ریونیو میں 35 فیصد اضافہ https://youtu.be/9oTZzCQTAZ8

وفاقی حکومت کی طرف سے پیمرا ترمیمی ایکٹ 2023سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات میں ایک متنازعہ شق کو بنیاد بناکر پورا بل واپس لینے کے اقدام پر پارلیمنٹ میں صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن نے احتجاج کی حکمت عملی تیار کرلی ہے اور اس سلسلے میں ہر سطح پر سخت احتجاج کا فیصلہ کیا گیا ہے گزشتہ روز کے قومی اسمبلی کی پریس گیلری سے واک آوٹ کے فالو اپ میں آج پی آر اے وفد نے صدر پی آر اے صدیق ساجد کی قیادت میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے ہنگامی ملاقات کی ملاقات میں سابق صدر پی آر اے بہزاد سلیمی ،سابق سیکرٹری پی آر اے ایم بی سومرو ،سابق سیکرٹری اطلاعات پی آر اے علی شیر اور سینئر ممبر پی آر اے عثمان خان شریک تھے پی آر اے کی موجودہ اور سابقہ باڈی نے چیئرمین سینیٹ پر واضح کیا کہ پی آر اے اپنے حقوق کے لئے متحد ہے اور کسی کو قانون سازی میں کارکنان صحافیوں کے حقوق پر ڈاکہ مارنے کی اجازت نہیں دے گی
پی آر اے وفد نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو بتایا کہ گزشتہ روز پی آر اے نے قومی اسمبلی کی پریس گیلری سے واک آوٹ کیا تو وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیر تعلیم رانا تنویر حسین نے ایوان میں یقین دہانی کرائی کہ پیمرا ترمیمی بل 2023سے متنازعہ شق واپس لیکر باقی بل منظور کرانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی پی آر اے وفد نے چیئرمین سینیٹ سے مطالبہ کیا چونکہ رولز کے مطابق کوئی بھی بل کسی قائمہ کمیٹی کو مزید غور کے لئے بھیجا جاتا ہے مگر بل کی حتمی منظوری یا مسترد کرنے کا اختیار ایوان کو ہی حاصل ہوتا ہے اس لئے سینیٹ ایوان کارکن صحافیوں کو روزگار کے تحفظ اور تنخواہ بروقت دلانے کے لئے تئیس سال میں پہلی مرتبہ متوقع طورپر ملنے والے قانونی حق کو فراہم کرانے کے لئے اپنا اختیار استعمال کرے اور مس انفارمشن و ڈس انفارمشن کی متنازعہ شق واپس لیکر باقی بل کو منظور کرے مس انفارمشن اور ڈس انفارمشن کی تعریف پر اتفاق رائے پیدا کرکے اگلی حکومت نئی ترمیم لاسکتی ہے
پی آراے نے اعلان کیا ہے کہ آج پانچ بجے قومی اسمبلی کی پریس گیلری سے واک آوٹ کرکے پارلیمنٹ ہاوس کے گیٹ نمبر ایک پرامن احتجاج کیا جائے گا کل سینیٹ اجلاس کے دوران پریس گیلری سے واک آوٹ کیا جائے گا اورصحافی بازووں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر پارلیمانی کوریج اور احتجاج کریں گے

صحافت آزادی صحافت اور ہم (فاروق فیصل خان)
بعض تراکیب نعرے اور دعوے معنوی لحاظ سے بڑے دلکش نظر آتے ہیں۔ ان کی گہرائی میں جایا جائے تو حقیقت اور مقاصد میں واضح تضاد نظر آئے گا۔ کچھ ایسا ہی معاملہ صحافت اور آزادی صحافت کا بھی ہے ۔ چند سطور یا ایک نشست میں اس موضوع سے انصاف ممکن نہیں۔ صحافت کیا ہے ؟ اس کا دائرہ کار کیا ہے؟ آزادی صحافت کیا ہے ؟ نعرے لگائے اور آدرشوں کا درس دینے والوں کے مقاصد کیا ہوتے یہ سب بھی تحریر کا موضوع نہیں۔ بس چند واقعات بیان کرنے ہیں جو اپنی آنکھوں سے دیکھے ۔
90 کی دہائی کا آغاز تھا نئے نئے رپورٹر بنے ۔ صحافیوں کے ساتھ کوئی معاملہ ہوا۔ احتجاج کے لئے پارلیمنٹ گیلری سے واک آؤٹ ہونا تھا ۔ صبح ساڑھے سات بجے پی آئی او سید انور محمود صاحب کا گھر پر فون آیا۔ کہنے لگے فاروق آج زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں اپنے سینٹرز کو فالو کرنا۔ پارلیمنٹ ہاوس پہنچے تو معلوم پڑا کہ دائیں بائیں کے تمام گروپس میں اتفاق پایا جاتا ہے کہ کوئی غلط فہمی ہو گئ تھی دور ہو گئ ہے۔ اگلے ماہ وزیراعظم بیرون ملک دورے پر گئے تو کئ چہرے ان کے ہمراہ نظر آئے۔
روزنامہ پاکستان اسلام آباد کا ایڈیٹر بنے دوسرا روز تھا رات کو وزیر اطلاعات سید مشاہد حسین کا فون آیا کہ انہوں نے اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بینظیر بھٹو کی تقریر کا جواب دیا ہے ۔ ان کی اور بینطیر کی تقاریر کو برابر شائع ہونا چاہئے۔ مشاہد صاحب سے نیاز مندی تھی اس لئے فرمائش پر ڈرتے ڈرتے عمل کیا کیونکہ اس روز شہید بی بی کی پارلیمانی کارکردگی کا کوئی جواب نہ تھا۔ اگلے روز معاصر اخبارات دیکھے تو مشاہد صاحب کی خبر اپوزیشن لیڈر کےپالیسی بیان سے نمایاں شائع ہوئی ۔
میڈیا ہاوس کے نمائندے کی حیثیت سے اے پی این ایس اور سی پی این ای کے اجلاس میں شرکت کا موقع ملا۔ آزادی صحافت کے حوالے سے حکومت کے خلاف سخت تقاریر جاری تھیں ۔ تقریب سے آٹھ کر باہر نکلا تو دوسرے ہال میں کھانے کا انتظام ہو رہا تھا جس کی نگرانی پی آئی او اکرم شہیدی اور چاچا ادریس کر رہے تھے۔ اندر اجلاس میں بات کرنے کا موقع ملا تو بزرگوں سے عرض کیا کہ جو کہا جا رہا ہے اس پر سرکاری روٹی کھا کر تو عمل نہیں کیا جا سکتا۔ بعد میں معلوم پڑا کہ معزز مہمان سرکار کی ٹکٹ پر اسلام آباد آئے ہیں اور سرکار کے ہی مہمان ہیں۔
ورکرز کے معاملے اور مفاد کے لئے ہونے والے مذاکرات میں دوستوں اور ساتھیوں کو گفتگو کا آغاز اس طرح کرتے دیکھا۔۔
ملک صاحب۔۔اوئے ہن کی اے
وفد۔۔۔ مجبوری ہے آنا پڑتا ہے ۔۔۔عید سر پر ہے ۔ورکرز اور ساتھیوں کے لئے عیدی اور فیس سیونگ چاہئے نہیں تو دوسرا گروپ شور ڈال دے گا ۔۔۔اور کئ کئ ماہ کے واجبات عیدی پر ہی خوش کن نعروں کی نذر ہو گئے
میرا خیال ہے سمجھنے والوں کو صحافت اور آزادی صحافت کے نعروں کو سمجھنے میں آسانی ہو گی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں