11 ماہ تک مقدمے سے مختکف بہانوں سے بچنے والے عمران خان نے توشہ خانہ کی چوری کا جواب دینے کے بجائے ملٹری سیکرٹری سے پوچھنے کا کہہ دیا عدالت کے باہر یوٹیوبرز کی پولیس کے ہاتھوں ٹھکائی

توشہ خانہ فوجداری کارروائی سے متعلق کیس میں 342 کا بیان قلمبند کراتے ہوئے چییرمین پی ٹی آئی نے عدالت کو بتایا ہے کہ2019-20 میں وصول کردہ تحائف اثاثہ جات میں ظاہر کرنا ضروری نہیں تھا کیونکہ سال ختم ہونے سے قبل ان کو اگے تحفے میں دےدیاگیاتھا۔تحائف بیچنے کے بعد وصول کردہ رقم اثاثہ نہیں سمجھا جاسکتا،میں نے بریگیڈیئر وسیم چیمہ کے زریعے تحائف بیچے جنہیں عدالت بطور گواہ نوٹس جاری کر سکتی ہے ۔کیس کی سماعت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جج ہمایوں دلاور نے کی ۔چئیرمین پی ٹی آئی نے عدالت کے روبرو پیش ہو کر اپنے بیان میں کہا ہے کہ میرا کنسلٹنٹ فیصلہ کرتاہےکہ اثاثہ جات کی کون سی تفصیلات مہیا کرنی ہیں یا نہیں،
میرے کنسلٹنٹ نے توشہ خانہ کے تحائف کو ایک گروپ کی شکل میں شامل کیاتھا،
میں نے توشہ خانہ تحائف اپنے پاس پچاس فیصد قیمت پر رکھے،کیس کی سماعت کے آغاز میں جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ میں سوالات سنا رہا ہوں جوابات دینا چاہیں تو دیں ۔عدالت آپ کو سوالات پڑھ کر سنائے گی باقی آپ کی مرضی ۔
چئیرمن پی ٹی آئی نے 342 کے بیان میں کہا کہ میں نے شکایت کنندہ کے الزامات نہیں سنے میری غیر موجودگی میں ریکارڈ ہوئے میری غیر موجودگی میں فرد جرم عائد کی گئی نہ ہی فرد جرم مجھے پڑھ کر سنائی گئی میں نے کسی کو نمائندہ مقرر نہیں کیاسیشن عدالت نے خود ہی نمائندہ مقرر کر دیا اور گواہان کے بیانات قلمبند کرانے میرے وکلا نے اس کی مخالفت بھی کی ۔بیانات قلمبند کراتے وقت ہر سماعت پر مجھے استثنا دیا گیا الیکشن کمیشن کی جانب سے شکایت 120 دن کے بعد دائر کی گئی ۔مین نے 2017 سے 20 تک اپنے اثاثوں کی تفصیلات الیکشن کمیشن میں جمع کرائی ۔چئءرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کا ریفرنس بدنیتی پر مشتمل ہے ۔مین نے 2018 -19 میں دائر ،جواب میں نہیں کہا کہ میں نے 58 ملین نجی بینک میں جمع کروائے ۔ قانون میں یہ بھی نہیں لکھا کہ تحائف کے نام جمع کرائیں ۔ تحائف کے حوالے سے دستاویزات کو سوالنامے میں شامل نہیں کیا جا سکتا ۔توشہ خانہ تحائف ذاتی نوعیت کے تھے جن کا زکر میرے ٹیکس کنسلٹنٹ نےدائر اثاثہ جات میں کیا میرا اکاؤنٹنٹ 40 سال سے کام کر رہا ہے اسے اثاثہ جات جمع کرانے کے حوالے سے معلوم ہے میں نے تحائف زاتی طور پر نہیں بیچے،میں نے بریگیڈیئر وسیم چیمہ کے زریعے تحائف بیچے جن کو عدالت بطور گواہ نوٹس جاری کرسکتی ہےالیکشن کمیشن نے 2019-20 کے حوالے سے کبھی خریداروں کے نام نہیں پوچھے،
فوجداری کارروائی میں شکائت کنندہ کو ثابت کرنا ہےکہ تحائف میرے پاس تھے جو میں نے ظاہر نہیں کیے،تحائف پاس ہونے کے باوجود ظاہر نہ کرنے کے الزام پر شکائت کنندہ کے پاس نہ ثبوت نہیں،
شکائت کنندہ پر لازم ہے کہ وہ ثابت کرے کہ تحائف میرے پاس تھے جو اس نے ثابت نہیں کیے،
[

توشہ خانہ فوجداری کارروائی سے متعلق کیس میں 342 کا بیان قلمبند کراتے ہوئے چییرمین پی ٹی آئی نے عدالت کو بتایا ہے کہ2019-20 میں وصول کردہ تحائف اثاثہ جات میں ظاہر کرنا ضروری نہیں تھا کیونکہ سال ختم ہونے سے قبل ان کو اگے تحفے میں دےدیاگیاتھا۔تحائف بیچنے کے بعد وصول کردہ رقم اثاثہ نہیں سمجھا جاسکتا،میں نے بریگیڈیئر وسیم چیمہ کے زریعے تحائف بیچے جنہیں عدالت بطور گواہ نوٹس جاری کر سکتی ہے ۔کیس کی سماعت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جج ہمایوں دلاور نے کی ۔سماعت کے آغاز میں جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ میں سوالات سنا رہا ہوں جوابات دینا چاہیں تو دیں ۔عدالت آپ کو سوالات پڑھ کر سنائے گی باقی آپ کی مرضی ۔چئیرمین پی ٹی آئی نے عدالت کے روبرو پیش ہو کر اپنے بیان میں کہا ہے کہ میرا کنسلٹنٹ فیصلہ کرتاہےکہ اثاثہ جات کی کون سی تفصیلات مہیا کرنی ہیں یا نہیں،
میرے کنسلٹنٹ نے توشہ خانہ کے تحائف کو ایک گروپ کی شکل میں شامل کیاتھا،
میں نے توشہ خانہ تحائف اپنے پاس پچاس فیصد قیمت پر رکھے،
چئیرمن پی ٹی آئی نے 342 کے بیان میں کہا کہ میں نے شکایت کنندہ کے الزامات نہیں سنے میری غیر موجودگی میں ریکارڈ ہوئے میری غیر موجودگی میں فرد جرم عائد کی گئی نہ ہی فرد جرم مجھے پڑھ کر سنائی گئی میں نے کسی کو نمائندہ مقرر نہیں کیاسیشن عدالت نے خود ہی نمائندہ مقرر کر دیا اور گواہان کے بیانات قلمبند کرانے میرے وکلا نے اس کی مخالفت بھی کی ۔بیانات قلمبند کراتے وقت ہر سماعت پر مجھے استثنا دیا گیا الیکشن کمیشن کی جانب سے شکایت 120 دن کے بعد دائر کی گئی ۔مین نے 2017 سے 20 تک اپنے اثاثوں کی تفصیلات الیکشن کمیشن میں جمع کرائی ۔چئءرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کا ریفرنس بدنیتی پر مشتمل ہے ۔مین نے 2018 -19 میں دائر ،جواب میں نہیں کہا کہ میں نے 58 ملین نجی بینک میں جمع کروائے ۔ قانون میں یہ بھی نہیں لکھا کہ تحائف کے نام جمع کرائیں ۔ تحائف کے حوالے سے دستاویزات کو سوالنامے میں شامل نہیں کیا جا سکتا ۔توشہ خانہ تحائف ذاتی نوعیت کے تھے جن کا زکر میرے ٹیکس کنسلٹنٹ نےدائر اثاثہ جات میں کیا.چئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ میرا اکاؤنٹنٹ 40 سال سے کام کر رہا ہے اسے اثاثہ جات جمع کرانے کے حوالے سے معلوم ہے میں نے تحائف زاتی طور پر نہیں بیچے، بریگیڈیئر وسیم چیمہ کے زریعے تحائف بیچے جن کو عدالت بطور گواہ نوٹس جاری کرسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 2019-20 کے حوالے سے کبھی خریداروں کے نام نہیں پوچھے،
فوجداری کارروائی میں شکائت کنندہ کو ثابت کرنا ہےکہ تحائف میرے پاس تھے جو میں نے ظاہر نہیں کیے،تحائف پاس ہونے کے باوجود ظاہر نہ کرنے کے الزام پر شکائت کنندہ کے پاس ثبوت نہیں،
شکائت کنندہ پر لازم ہے کہ وہ ثابت کرے کہ تحائف میرے پاس تھے جو اس نے ثابت نہیں کیے۔سماعت ابھی جاری ہے ۔۔۔۔۔۔

جوڈیشیل کمپلیکس سے یو ٹیوبرز طارق کے ساتھ پولیس کا تشدد رضی طاہر اور طارق کو عمران خان کی کوریج کے دوران گرفتار کر لیا گیا
صرف چیئرمین کی کوریج پر آنے والے یوٹیوبرز ہیں کسی اخبار یا ٹی وی چینل سے براہ راست انکا کو ئی واسطہ نہیں ۔۔۔چونکہ کورٹ رپورٹنگ ایک انتہائی ذمہ دارانہ شعبہ ہے تاہم جنھوں نے پولیس کے ساتھ الجھاؤ پیدا کیا ان کی بنیادی تربیت ہی نہیں ہوئی ۔۔۔ایسے میں وہ پیشہ ور کورٹس رپورٹرز دوستوں کے لیئے بھی مشکلات کا باعث بنتے ہیں
یہاں تو صحافی بات جا بتنگڑ بناتے بھی دیکھے میں نے 35 سال میں، لیکن ہمیں یوٹیوبرز اور صحافیوں کے درمیان فرق رکھنا چاہئے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں