مظفراباد ( نور الحسن گیلانی سے ) گزشتہ ایک ماہ سے وزیراعظم ازاد کشمیر چوہدری انوارلحق کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تمام تر احکامات دم توڑ گئے تحریک کے عدم اعتماد یکم نومبر کے بعد پیش ہونے کا امکان تفصیلات کے مطابق وزیراعظم ازاد کشمیر چوہدری انوار لحق کے خلاف تحریک عدم اعتماد جو گزشتہ ایک ماہ سے پیپلز پارٹی کی جانب سے دعوی کیا جا رہا ہے کہ ان کے پاس مطلوبہ اراکین کی تعداد پوری ہے وہ کسی وقت بھی تحریک عدم اعتماد لا سکتے ہیں
جس میں تقریبا پانچ مرتبہ پیپلز پارٹی کا اجلاس ہو چکا ہے اور نئے وزیراعظم کے ناموں پر بھی اتفاق ہونے کے بعد پارٹی کے اندر سے اختلافات کے باعث نام تبدیل کرنے کا سلسلہ جاری ہے جبکہ وزیراعظم ازاد کشمیر چوہدری انوارلحق کا کہنا ہے کہ میں گھر جانے کو تیار ہوں پیپلز پارٹی 27 ممبران شو کریں اور میں استعفے نہیں دوں گا تحریک عدم اعتماد لائیں تو میں گھر خوش اسلوبی سے چلا جاؤں گا اگر ان کے پاس تعداد موجود ہے اور ان کا دعوی ہے کہ پیپلز پارٹی کے پاس مطلوبہ تعداد پوری نہیں ہے جبکہ دوسری جانب نون لیگ کو وفاق کی جانب سے حکم دیا گیا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں جبکہ ازاد کشمیر کی قیادت کا کہنا ہے کہ وہ ووٹ دیں گے مگر ووٹ دینے کے بعد وہ اپوزیشن پنچوں پر بیٹھیں گے درحقیقت پپلس پارٹی بخوبی جانتی ہے کہ نون لیگ کی اراکین وفاق کے حکم کو مانتے ہوئے انہوں نے یہ اعلان تو کیا ہے کہ وہ ووٹ دیں گے مگر وہ ووٹ نہیں دیں گے یہ حادشات موجود ہیں دوسری وجہ
اندرون خانہ جو خبر ہے وہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے درمیان کشمکش موجود ہے کیونکہ نون لیگ اگر ووٹ پیپلز پارٹی کو دیے کر ازاد کشمیر کا چوتھا وزیراعظم منتخب کرواتی ہے تو ائندہ الیکشن میں نون لیگ کو عوام ووٹ نہیں دے گی کیونکہ ان کا ووٹ کم ہونے کا خدشات موجود ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ الیکشن کو ساڑھے سات اٹھ ماہ باقی ہیں ایسی صورتحال میں نون لیگ کبھی ایسی غلطی نہیں کرے گی کہ وہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دے کے ائندہ الیکشن میں اپنے لیے مشکلات کھڑی کریں جبکہ پیپلز پارٹی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وزارت عظمی کے لیے جو نام تجویز کیے جاتے ہیں اس پر اختلافات سامنے ا کر انہیں ہٹایا جاتا ہے اور پھر دوسرا نام جب سامنے لایا جاتا ہے تو اس پر بھی تردید سامنے ا جاتی ہے اس صورتحال کے باعث ازاد کشمیر میں ایسے وقت نئے وزیراعظم لانا اور تحریک عدم اعتماد لانا ایک ایسا عمل ہے جیسے اسمان سے تارے توڑنے کے برابر اور اگر نیا وزیراعظم ازاد کشمیر میں لایا جاتا ہے تو وہ ان قلیل عرصے میں اپنی کابینہ کی تشکیل اور حکومت سازی کے علاوہ عوام کے مسائل جو گزشتہ کافی عرصے سے ردی کی ٹوکری میں ڈالے گئے ہیں اس کو کیسے یہ پورا کریں گے اور اگر یہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوں گے تو ائندہ الیکشن میں انہیں مایوسی کے سوا اور کچھ نہیں مل سکتا اس وقت عوامی ایکشن کمیٹی کی جو کال دی گئی تھی دو مرتبہ سب سے بڑی کاک میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے حمایت کرنے کے بجائے مخالفت کی تھی جس سے عوام کی بڑی تعداد سیاسی جماعتوں سے ناراض ہے اور اس میں سیاسی کارکن بھی ہیں ازاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی جانب سے وزیراعظم کا امیدوار صرف ایک ہیں مگر اس وقت چار امیدوار وزیراعظم کی شیروانیہ سلہ کر اپنے حلقے کی عوام کو خوشخبری سنا چکے ہیں کہ انشاءاللہ اس مرتبہ وزیراعظم ازاد کشمیر ہم بنیں گے اور تمام خرابیوں کا ازالہ ہوگا اب جب کہ یکم نومبر کو وزیراعظم ازاد کشمیر چوہدری انوار علاقے خلاف تحریک عدم اعتماد کا اعلان تو پیپلز پارٹی نے کر دیا ہے مگر تحریک ختم اعتماد کو خوش سلوبی کے ساتھ مزید اگے بڑھایا جائے گا کیونکہ یہی وقت کی ضرورت ہے اور ایسی صورتحال میں کوئی بھی سیاسی جماعت نہیں چاہئے گی کہ جو نیا وزیراعظم ازاد کشمیر ائے اور اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارے