نیشنل پریس کلب اسلام آباد پر پولیس گردی کیخلاف صحافی برادری کا جمعہ کو یوم سیاہ منانے کا اعلان

اسلام آباد() نیشنل پریس کلب اسلام آباد پر پولیس گردی کیخلاف صحافی برادری کا جمعہ کو یوم سیاہ منانے کا اعلان،نیشنل پریس کلب سمیت پاکستان بھر کے تمام پریس کلبوں پر سیاہ پرچم لہرائے جائیگے،صحافی برادری ملک بھر میں احتجاجی ریلیاں نکالے گی، نیشنل پریس کلب پر حملہ، آزادی صحافت پر حملہ ہے،پریس کلب کے عہدیداران پر تشدد کیا گیاکوریج کیلئے موجود ویڈیو جرنلسٹس اور فوٹو گرافرز کو لیٹا کر مارا گیافوٹو گرافرز کے کیمرے چھین کر زمین پر پٹخ کرتوڑے گئے صحافیوں کے موبائل چھین کر توڑے گئےآج جو کچھ ہوا ناقابل برداشت ہے، یہ حملہ تاریخ کا آخری حملہ ہو گااس کے بعد مستقبل میں کسی کی جرات نہیں ہو گی کہ کسی بھی پریس کلب پر ایسا حملہ کیا جائےاسلام آباد کی انتظامیہ اور وفاقی پولیس اس یونیورسل لاء کو نہیں جانتی آن خیالات کا اظہار پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ،آر آئی یو جے کے صدر طارق علی ورک ،نیشنل پریس کلب کی سیکرٹری نیئر علی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا،نیشنل پریس کلب پر پولیس حملے ، صحافیوں اور این پی سی سٹاف پر تشدد اور کیفے ٹیریا میں توڑ پھوڑ کیخلاف صحافتی تنظیموں کا اجلاس اور احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں راولپنڈی اسلام آباد کی تمام صحافی تنظیموں کے عہدیدارتمام تر اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے گھر پر حملے کے معاملے کو سنجیدہ لیکر شریک ہوئے، اجلاس اورمظاہرےسے خطاب کرتے ہوئے پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ کا کہنا تھا کہ آج کا دن پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہےنیشنل پریس کلب پر حملہ، آزادی صحافت پر حملہ ہے،نیشنل پریس کلب ساڑھے 3 ہزار صحافیوں کا دوسرا گھر ہے، جس کا تقدس پامال کیا گیا،پریس کلب پر حملہ نیشنل پریس کلب کے ساڑھے تین ہزار ممبران کے گھر کی چادر اور چار دیواری کے تقدس کی پامالی ہے،اسلام آباد کی انتظامیہ اور وفاقی پولیس اس یونیورسل لاء کو نہیں جانتی کہ دنیا بھر کا اصول ہےاگر قتل کا ملزم کسی وکیل کے چیمبر میں چلا جائے لیکن پولیس اسکو گرفتار چیمبر یا بار میں نہیں جا سکتی پولیس کسی ملزم کی گرفتاری کیلئے کمرہ عدالت میں نہیں جاتی ،دنیا کا یہ بھی اصول ہے کہ کوئی سیاسی جماعت یا حکومت سیاسی انتقام کا نشانہ بنائے اور وہ اپنے نقطہ نظر سے آگاہ کرنے کیلئے پریس کلبوں میں آتا ہےکسی ڈکٹیٹر کا دور ہو یا جمہوری حکومت، کبھی پولیس نے کسی پریس کلب میں داخل ہو کر اس بندے کو گرفتار نہیں کیا،لاہور پریس کلب کے صدر نے بتایا جتنی تعداد میں آپ یہاں موجود ہیں، اتنی تعداد میں لاہور میں بھی صحافی موجود ہیںکراچی اور کوئٹہ سے بھی کالز موصول ہوئیں، آج جو پریس کلب پر حملہ ہوا یہ ملک بھر کے چالیس ہزار صحافیوں کی چادر اور چار دیواری کے تقدس کی پامالی ہے،پریس کلبز اور یونینز کا بھی شکر گزار ہوںایسا لائحہ عمل اختیار کرینگے کہ یہ حملہ تاریخ کا آخری حملہ ہو گااس کے بعد مستقبل میں کسی کو کسی بھی پریس کلب پردوبارہ ایسا حملہ کرنے کی جرات نہیں ہو گی آج جو کچھ ہوا ناقابل برداشت ہےپورے ملک سے سیاسی جماعتوں نے ہم سے رابطہ کر کے واقعے کی مذمت کی ہے،اس موقع پر صدر آر آئی یو جے طارق علی ور ک کا کہنا تھا کہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد آزادی صحافت کا سب سے بڑا فورم ہےآج پریس کلب پر جو حملہ کیا گیا اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہےاسلام آباد پولیس کے ملوث اہلکاروں کو یہاں بھیجا گیا تھایہ وفاقی دارلحکومت ہے، اور یہ پریس کلب پاکستان کا سب سے بڑا پریس کلب ہےاس مرتبہ اسلام آباد پولیس نے حد کر دی، یہاں آ کر صحافیوں پر تشدد کیاپولیس نے پریس کلب میں توڑ پھوڑ کی، پریس کلب کے دل کے مرض میں مبتلاء ملازم کو گرفتار کیااس حوالے سے ہم ایسا لائحہ عمل تیار کرینگے، تاکہ ایسی غنڈہ گردی مستقبل میں نہ ہوصحافیوں کو پہلے پیکا ایکٹ جیسے قانون کی آڑ میں حراساں کیا گیااب صحافیوں کو ان کے گھر پریس کلب میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا،سیکرٹری این پی سی نیئر علی نے کہا کہ آج حد ہو گئی کہ جس طرح پریس کلب میں گھس کر تشدد اور توڑ پھوڑ کی گئی اس کی مثال نہیں ملتی اگر کوئی نامزد ملزم بھی پریس کلب میں آتا ہے، تو پولیس پریس کلب کے گیٹ پر کھڑی ہو کر اسکا انتظار کرتی تھی اگر معاملہ طول پکڑتا تھا تو پریس کلب کے مینیجر یا عہدیداران سے رابطہ کیا جاتا تھا مگرآج پریس کلب کی انتظامیہ کو یہاں پریس کلب میں مارا گیا،اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جمعۃ المبارک کے روز اس بد ترین واقعے کے خلاف کل پورے پاکستان میں یوم سیاہ منایا جائیگا،نیشنل پریس کلب سمیت پاکستان بھر کے تمام پریس کلبوں پر سیاہ پرچم لہرائے جائیگےصحافی برادری ملک بھر میں احتجاجی ریلیاں نکالے گی ۔
اسلام آباد: نیشنل پریس کلب پر پولیس کا دھاوا، صحافیوں پر تشدد

آج نیشنل پریس کلب پر پولیس نے حملہ کرتے ہوئے صحافیوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ پولیس اہلکار پریس کلب کے اندر داخل ہوئے اور صحافیوں پر لاٹھی چارج کیا۔ یہ کارروائی تھانہ کوسار کے ایس ایچ او میاں خرم کی نشاندہی پر کی گئی جن کے ساتھ دیگر اہلکار بھی اندر داخل ہوئے۔

اسلام آباد پولیس نے یہ اقدام کشمیر میں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کا بدلہ لینے کے طور پر اٹھایا۔ صحافی برادری نے اس پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف مذمت اور احتجاج سے اب بات آگے بڑھ چکی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ واقعے میں ملوث تمام پولیس اہلکاروں کو فوری طور پر ڈسمس فرام سروس کیا جائے، بصورت دیگر صحافی چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں