پاکستانی میڈیکل طالبعلم کا ایس سی او فورم میں مصنوعی ذہانت سے تخلیق کردہ روایتی طب کا تجربہ

پاکستانی میڈیکل طالبعلم کا ایس سی او فورم میں مصنوعی ذہانت سے تخلیق کردہ روایتی طب کا تجربہ
نان چھانگ(شِنہوا)شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) روایتی طب فورم میں روایتی چینی ادویات(ٹی سی ایم) پویلین میں ہدایت دی گئی کہ ’’اپنا چہرہ آلے کی طرف کریں اور زبان باہر نکالیں‘‘۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی طالبعلم عبداللہ حسیب ایک کیپسول نما آلے کے سامنے جھکے جہاں چمکتی ہوئی روشنیوں نے اشارہ دیا کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر مبنی نظام ان کے چہرے اور زبان کے ڈیٹا کا تجزیہ کر رہا ہے۔ یہ ان کا ٹی سی ایم اور اے آئی کا پہلا عملی تجربہ تھا۔
حسیب نے پرجوش انداز میں کہا کہ یہ تو بالکل سائنس فکشن فلم جیسا ہے!۔ وہ چین کے مشرقی صوبے جیانگ شی کی نان چھانگ یونیورسٹی کے میڈیکل پوسٹ گریجویٹ طالبعلم ہیں جو خاص طور پر 24 سے 26 ستمبر تک جاری اس اعلیٰ سطح کے فورم میں شرکت کے لئے آئے تھے۔ فورم میں دنیا بھر سے 100 سے زائد اداروں نے شرکت کی لیکن حسیب کو قدیم علاج کو جدید مصنوعی ذہانت سے جوڑنے والے نظام نے سب سے زیادہ متاثر کیا۔
حسیب نے نبض ناپنے والے ایک آلے کے پاس اپنی بائیں کلائی آگے بڑھائی۔ ایک چاندی نما سینسر نے نرمی سے چھوا اور ان کی نبض کا ڈیٹا فوری طور پر سکرین پر ظاہر ہوگیا۔ انہوں نے متحرک خاکوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دیکھیں یہ میری نبض کی لہریں ہیں۔ یہ ٹی سی ایم کو ایک مترجم دینے جیسا ہے جس سے غیر محسوس نبض بصری ڈیٹا میں تبدیل ہوتی ہے۔
عملے نے بتایا کہ یہ نظام 100 سے زائد جسمانی اقسام کی شناخت کرسکتا ہے۔ قدیم طبی ریکارڈز اور جدید کیسز سے سیکھ کر اے آئی نے علامات کی تشخیص اور علاج کے لئے ایک ذہین ماڈل تیار کیا ہے۔ جب نسخہ تیار ہوتا ہے تو ایک خودکار فارمیسی صرف 20 سیکنڈ میں 99.97 فیصد درستگی کے ساتھ جڑی بوٹیاں فراہم کر دیتی ہے۔
جڑی بوٹیوں کے قہوےکے زون میں تو ٹیکنالوجی کی اور بھی بلند سطح دیکھنے کو ملی۔ 60 سمارٹ ڈیکوکشن برتن اے آئی کے کنٹرول میں حرارت کو ایڈجسٹ کرتے ہیں جبکہ 6 مشینیں ایک ساتھ قہوہ پیک کرتی ہیں۔ حسیب نے مائع کو بند پائپوں سے ویکیوم پیک میں جانے کا مشاہدہ کرتے ہوئے بتایا کہ پہلے قہوہ تیار کرنے کے لئے گھنٹوں نگرانی کرنی پڑتی تھی لیکن اب پورا عمل خودکار ہے۔ ہر بیچ کے اجزاء میں فرق 5 فیصد کے اندر رہتا ہے جو انسانی ہاتھ سے ممکن نہیں۔
حسیب نے ایک ٹریس ایبلٹی پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے کہا کہ اچھی دوا اچھی جڑی بوٹیوں پر منحصر ہے۔ ایک مرتبہ چھونے پر انہوں نے اسٹراگلس روٹ کے نمونے کی تفصیلات بڑی کرکے دیکھیں۔ مٹی کا پی ایچ، بارش کا ریکارڈ اور کٹائی کی تاریخ سب کچھ واضح تھا۔ یہ مریضوں کے معیار سے متعلق خدشات کو ختم کرتا ہے۔
ایسی شفافیت ٹی سی ایم کی عالمی سطح پر پہنچ کے لئے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ گان جیانگ چائنیز میڈیسن انوویشن سنٹر کے نائب ڈائریکٹر شو چھنگ نے بتایا کہ ان کی ٹیم 9 بڑے ڈیٹابیس بنا رہی ہے اور اے آئی کے ذریعے جڑی بوٹیوں کے اجزا کو “ڈیکوڈ” کرنے پر کام کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک ‘بلیک باکس’ کو سمجھنے جیسا ہے۔ ہمیں معلوم کرنا ہے کہ کون سا جزو موثر ہے۔
چین کے قومی صحت کمیشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ٹی سی ایم اب 196 ممالک اور خطوں میں پھیل چکی ہے۔ ایس سی او روایتی طب فورم اس کی بین الاقوامی ترویج کے لئے ایک اہم پلیٹ فارم ہے۔ جیانگشی یونیورسٹی آف ٹی سی ایم کے نائب صدر لیو چھیان نے بتایا کہ اس صوبے نے 3 ہزارسے زائد بین الاقوامی طلبہ کو ٹی سی ایم کی ڈگری کی تعلیم دی ہے۔
حسیب نے ذہین مشین کے تیار کردہ قہوے کا پیکٹ تھامے ہوئے کہا کہ چین واقعی ٹی سی ایم کی تعلیم میں رہنما ہے۔ آج میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جدید ٹیکنالوجی کس طرح روایتی چینی طب کو ایسی زبان دیتی ہے جو دنیا سمجھ سکتی ہے۔ پاکستان کے پاس بھی جڑی بوٹیوں کے بھرپور وسائل ہیں اور باہمی تعاون کی زبردست گنجائش موجود ہے۔ ایک میڈیکل طالبعلم کے طور پر میں پاکستان اور چین کے درمیان طبی تبادلوں کا پل بننے کا خواہشمند ہوں۔
دریائے گان جیانگ کے کنارے جنم لینے والی یہ اختراعات اب ایس سی او کے پلیٹ فارم سے دنیا تک پہنچ رہی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں