*جب محافظ ہی لٹیرے بن جائیں: این ایچ اے کی ایگزیکٹو بورڈ بدعنوانی اور ملی بھگت کا گڑھ بن گئی*
*رانا تصدق حسین*
*اسلام آباد*- نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) جو پاکستان کے شاہراتی ترقیاتی نظام کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی تھی، آج بدعنوانی، اقرباء پروری، اور قانون شکنی کا مرکز بن چکی ہے۔ جہاں ایگزیکٹو بورڈ کے فیصلے عوامی مفاد کی بجائے ذاتی مراعات، غیر قانونی تقرریوں، اور مالی بے ضابطگیوں کو تحفظ دے رہے ہیں۔
پارلیمنٹ نے 2024 میں اسٹیٹ اونڈ انٹرپرائزز ایکٹ (SOE Act 2024) منظور کیا تاکہ اداروں میں شفافیت، میرٹ اور کارکردگی کو فروغ دیا جا سکے، مگر وزارت مواصلات اور این ایچ اے میں اس قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔
1. ایگزیکٹو بورڈ: احتساب کا ادارہ یا ذاتی مفاد کا آلہ؟
ایگزیکٹو بورڈ، جو پالیسی سازی اور نگرانی کے لیے قائم کیا گیا تھا، آج:
پنجاب و کے پی کے کے سروس رولز کو اختیار کر کے سینئرٹی اور مراعات کو مرضی سے ترتیب دے رہا ہے۔
روڈ فنڈز کو وزارت مواصلات کے فرنیچر، ڈے کیئر، کیفے اور لیٹرینز پر خرچ کر رہا ہے۔
موٹر وے پولیس کے دفاتر کی تعمیر کی منظوری ایسے معاہدوں پر دے رہا ہے جن میں شفافیت کا فقدان ہے۔
ڈیپوٹیشن پر آئے افسران کو بلاجواز تعینات کرنے کی کھلی اجازت دی جا رہی ہے — ایسٹاکوڈ اور این ایچ اے سروس رولز کی صریح خلاف ورزی۔
2. SOE Act 2024 کی کھلی خلاف ورزی
اس قانون کے تحت:
اداروں کے سی ای اوز کی تقرری شفاف اور مسابقتی طریقے سے ہونی چاہیے۔
صرف متعلقہ فیلڈ کے ماہرین کو سربراہی دی جانی چاہیے۔
بورڈز کو سیاسی اور ذاتی اثر و رسوخ سے آزاد ہونا چاہیے۔
مگر حقیقت اس کے برعکس ہے:
گریڈ 19 اور 20 کے ڈیپوٹیشن افسران کو بغیر کسی تجربے کے چیئرمین اور سی ای او تعینات کیا گیا۔
کئی ایسے افراد تعینات ہیں جن کے خلاف احتساب بیورو میں سنگین الزامات موجود ہیں۔
3. نیب زدہ افسران کے ہاتھ میں نظام
جن افسران کو سزا ملنی تھی، وہ آج کلیدی عہدوں پر بیٹھے ہیں:
علی شیر محسود (سابق جی ایم و ممبر ایڈمنسٹریشن) نے M-1 سروس ایریا کا ٹھیکہ M/s Petrosin کو بغیر ٹینڈر کے دیا، اور ناران میں KM-123 یونٹ M/s Chib Enterprises کے حوالے کیا۔ انہیں نگران وزیر شاہد اشرف تارڑ نے بطور سیکرٹری مواصلات ترقی دی، اور وہ اب بھی اس عہدے پر قائم ہیں۔
محمد شکیل انور (FBR کا گریڈ 19 افسر) نے تاحیات طبی سہولیات دینے کی غیر قانونی فائل تیار کی۔ جن چیئرمینز نے فائدہ اٹھایا — شاہد اشرف تارڑ، جواد رفیق ملک — نے انہیں مزید اختیارات دیے۔
کیپٹن (ر) خرم آغا آج بھی این ایچ اے کی گاڑیاں اور طبی سہولیات استعمال کر رہے ہیں، حالانکہ وہ اب سیکرٹری داخلہ ہیں۔
ڈاکٹر بینش نور نے ڈیپوٹیشن کے دوران لاکھوں روپے کے بل بغیر کسی جانچ پڑتال کے حاصل کیے۔
شاہد اشرف تارڑ، جواد رفیق ملک، سکندر قیوم، ارشد مجید مہمند، شہریار سلطان — یہ وہ نام ہیں جو این ایچ اے کی بدعنوانی کی پہچان بن چکے ہیں، اور ان کے خلاف نیب خاموش ہے۔
4. سینیٹ رپورٹ نے بھی بھانڈا پھوڑ دیا
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اقتصادی امور نے اپنے حالیہ اجلاس میں CAREC Tranche-III منصوبے میں:
ڈس کوالیفائیڈ کنٹریکٹرز (جیسے NXCC) کو ٹھیکے دینے،
جعلی دستاویزات کے استعمال،
ادائیگیوں میں سنگین بے ضابطگیاں،
کی تصدیق کی ہے — مگر پھر بھی کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔
❓ 5. اہم سوالات:
نیب کہاں ہے؟ علی شیر محسود جیسے افسران کے خلاف ریفرنس کیوں غائب ہیں؟
نگران حکومت کے تقرر آج تک برقرار کیوں ہیں؟
SOE Act کا نفاذ کہاں ہے؟
پارلیمنٹ اور تحقیقاتی ادارے کب جاگیں گے؟
6. نتیجہ: لٹیروں کے ہاتھوں ملک کی شاہراہیں یرغمال
این ایچ اے — جو پاکستان کی اقتصادی شہ رگ ہے — آج کرپٹ افسران، جعلی کنٹریکٹرز اور سیاسی جوڑ توڑ کے ہاتھوں تباہ ہو رہی ہے۔ اگر بروقت کارروائی نہ کی گئی تو:
سینیٹ کی کمیٹی برائے مواصلات
نیب، ایف آئی اے
سپریم کورٹ یا اعلیٰ عدلیہ کے نوٹس
کے بغیر پاکستان کا شاہراتی نظام مکمل ناکامی سے دوچار ہو جائے گا۔
اب فیصلہ عوام، اداروں اور قوم کے ضمیر پر ہے۔