اسلام آباد ہائیکورٹ نے سی ڈی اے کو تحلیل کرنے کی ہدایت کردی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہ سی ڈی اے کے پاس ٹیکسز لگانے کا کوئی قانونی اختیار نہیں ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت کو سی ڈی اے کو تحلیل کرنے کی ہدایت کردی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے فیصلہ جاری کیا کہ سی ڈی اے کے پاس ٹیکسز لگانے کا کوئی قانونی اختیار نہیں ہے۔ براہ راست رسائی یا رائٹ آف وے چارجز کے نام پر سی ڈی اے نے اگر کسی شخص یا ادارے سے کوئی رقم وصول کی گئی ہے تو وہ واپس کی جائے۔ وفاقی حکومت سی ڈی اے کو تحلیل کرنے کا عمل شروع اور مکمل کرے۔ سی ڈی اے تحلیل کر کے تمام اختیارات اور اثاثے میٹروپولیٹن کارپوریشن کو منتقل کیے جائیں۔ اسلام آباد کے شہریوں کے حقوق کا تحفظ قانون کے تحت یقینی بنایا جائے

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے تجی ہاؤسنگ سوسائٹی اور اس کے رہائشیوں کی جانب سے دائر درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سی ڈی اے کا رائٹ آف وے اور ایکسس چارجز سے متعلق ۹ جون ۲۰۱۵ کا ایس آر او کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ ایس آر او کے تحت سی ڈی اے کے تمام اقدامات غیرقانونی قرار دیے جاتے ہیں۔ سی ڈی اے نے ایس آر او کے تحت کسی سے کوئی رقم وصول کی تو واپس کی جائے۔ عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ سی ڈی اے آرڈیننس وفاقی حکومت کے قیام اور اس کے ترقیاتی کاموں کےلیے نافذ کیا گیا تھا۔ نئے قوانین اور گورننس سے سی ڈی اے آرڈیننس کی عملی افادیت ختم ہو چکی ہے۔ سی ڈی اے کے قیام کا مقصد پورا ہو چکا، حکومت اسے تحلیل کرے۔ یقینی بنایا جائے کہ اختیارات منتقلی کے بعد اسلام آباد ایڈمنسٹریشن شفاف اور قابلِ احتساب ہو۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ اسلام آباد کا تمام ایڈمنسٹریٹو، ریگولیٹری اور میونسپل فریم ورک لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت کام کرتا ہے جو منتخب نمائندوں کے ذریعے گورننس کا خصوصی قانون ہے جس کے مطابق لوکل گورنمنٹ کی منظوری کے بغیر ٹیکسز نہیں لگائے جا سکتے۔ سی ڈی اے کے پاس ٹیکسز لگانے کا کوئی قانونی اختیار نہیں ہے۔واضح رہے کہ سی ڈی اے نے پیٹرول پمپس اور سی این جی سٹیشنز پر رائٹ آف ایکسس ٹیکس جبکہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز پر مرکزی شاہراہ سے ڈائریکٹ ایکسس ٹیکس عائد کیا تھا جسے ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں