وفاقی محتسب نے روزنامہ جنگ کی 5 خواتین ملازمین کے حق میں فیصلہ سنا دیا، جنہیں مطالبے کے بعد بطور سزا دن سے رات کی ڈیوٹی لگادی گئی تھی

فوسپا نے “انتظامی تبدیلیوں” کی آڑ میں صنفی امتیاز کو بے نقاب کر دیا

اسلام آباد، 21 اپریل 2025 – وفاقی محتسب برائے انسدادِ ہراسیت (فوسپا) نے راولپنڈی کے معروف اخبار ڈیلی جنگ کی پانچ سینئر خواتین ملازمین کے حق میں فیصلہ سنا دیا، جنہیں اپنی نوکری کی مستقلی اور مناسب معاوضے کے مطالبے کے بعد نہ صرف مخاصمانہ ماحول کا سامنا کرنا پڑا بلکہ بلا جواز ان کی ڈیوٹی بھی دن سے رات میں منتقل کر دی گئی۔

یہ شکایت پانچ خواتین نے درج کروائی تھی، جن کے پاس 18 سال سے زائد پیشہ ورانہ تجربہ ہے۔ انہیں بغیر کسی تحریری حکم کے دن کی شفٹ سے رات کی شفٹ میں منتقل کیا گیا، اور بنیادی سہولیات جیسے محفوظ ٹرانسپورٹ فراہم نہیں کی گئی۔ اس سب نے دفتر کا ماحول خواتین کے لیے زہریلا اور امتیازی بنا دیا۔

انتظامیہ نے دفاع میں مؤقف اختیار کیا کہ یہ تبدیلیاں ان کے “انتظامی اختیارات” میں آتی ہیں، اور یہ کہ یہ معاملہ 2010 کے انسدادِ ہراسانی ایکٹ کے دائرے میں نہیں آتا۔ لیکن فوسپا نے تمام شواہد کا جائزہ لینے کے بعد اس بات کو تسلیم کیا کہ ڈیلی جنگ راولپنڈی نے فیکٹری ایکٹ 1934 کی شق 45(b) کی خلاف ورزی کی ہے، جس کے مطابق خواتین شام 7 بجے کے بعد صرف اسی صورت میں کام کر سکتی ہیں جب انہیں محفوظ ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے، اور رات 10 بجے کے بعد کسی صورت ڈیوٹی نہیں لی جا سکتی۔

حیران کن طور پر دوران سماعت ملزمان نے تسلیم کیا کہ خواتین کو کوئی ٹرانسپورٹ سہولت نہیں دی گئی، بلکہ یہ بھی کہا کہ انہیں اس بات کی کوئی ذمہ داری محسوس نہیں ہوتی کہ خواتین رات 2 بجے گھر کیسے جائیں گی۔ یہ غیر سنجیدہ اور بے حسی پر مبنی رویہ انتظامیہ کے اندر خواتین کے حوالے سے موجود امتیازی سوچ کو بے نقاب کرتا ہے۔

تمام ثبوتوں اور مواد کی روشنی میں، فوسپا نے درج ذیل احکامات جاری کیے:

فوری طور پر تمام متاثرہ خواتین کو رات کے وقت مناسب ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے۔

خواتین ملازمین کو رات 10 بجے کے بعد کوئی ڈیوٹی نہ دی جائے۔

2010 کے ایکٹ کی دفعہ 4(4)(i)(d) کے تحت دونوں ملزمان پر “معمولی سزا” عائد کرتے ہوئے، ہر متاثرہ خاتون کو 25,000 روپے معاوضہ ادا کیا جائے، یعنی ہر ملزم کل 1,25,000 روپے ادا کرے گا۔

یہ فیصلہ اس بات کی اہم پہچان ہے کہ کام کی جگہ پر بظاہر “انتظامی فیصلوں” کے پردے میں کتنی گہری صنفی امتیاز کی جڑیں موجود ہیں۔ اس فیصلے سے واضح ہوتا ہے کہ انتظامی آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ خواتین ملازمین کو نظر انداز کیا جائے یا ان کی سلامتی کو خطرے میں ڈالا جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں