مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے قریبی ساتھی جماعت اسلامی پاکستان کے سابق نائب امیر بزرگ سیاستدان سینیٹر۔ ر پروفیسر خورشید احمد 93سال کی عمر میں برطانیہ کے شہر لیسٹر میں انتقال کرگئے
امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق ،سیکرٹری جنرل امیر العظیم ۔نائب امرا لیاقت بلوچ میاں محمد اسلم ڈاکٹر اسامہ رضی ڈاکٹر عطاء الرحمٰن پروفیسر محمد ابراہیم ڈپٹی سیکرٹریز سید وقاص انجم جعفری خالد رحمن ،اظہر اقبال حسن ،عبد الحق ہاشمی ،عثمان فاروق شیخ سید فراست علی شاہ ممتاز حسین سہتو۔جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما راشد نسیم حافظ محمد ادریس امیر جماعت اسلامی پاکستان کے سیاسی مشیر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ سیکرٹری اطلاعات جماعت اسلامی پاکستان قیصر شریف نے پروفیسر خورشید احمد کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے اور لواحقین سے اظہار تعزیت کیا ہے
پروفیسر خورشید احمد جماعت اسلامی کے بزرگ اعلیٰ اوصاف کے حامل سیاسی رہنما عالمی معاشی دانشور اور کئی کتابوں کے مصنف اور کئی عالمی ادا روں کے سربراہ تھے
جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے کہا پروفیسر خورشید احمد کی ملی قومی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔
سید مودوی کے علمی وارث،جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر خورشید احمد ، سابق سینیٹر و وفاقی وزیر توانائی ،ماہر اقتصادیات،انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد اور اسلامک فاؤنڈیشن برطانیہ کے بانی ، برطانیہ میں خالق حقیقی سے جاملے !!
پروفیسر خورشید احمد 23 مارچ 1932ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔آپ نے قانون اور اس کے مبادیات میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ علاوہ ازیں اکنامکس اور اسلامیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی، جبکہ ایجوکیشن میں یونیورسٹی کی طرف سے انہیں اعزازی ڈگری عطا کی گئی۔
پروفیسر خورشید احمد 1949 ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن بنے۔ 1953ء میں ناظم اعلٰی منتخب کیا گیا۔ 1956ء میں آپ جماعت اسلامی میں باضابطہ طور پر شامل ہو گئے۔آپ 1985ء، 1997ء اور 2002 ء میں سینٹ آف پاکستان کے رکن منتخب ہوئے اورسینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور اقتصادی و منصوبہ بندی کے چیئرمین کے طور پر کام بھی کیا۔
پروفیسر صاحب 1978ء میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی بنے۔ وہ حکومت پاکستان کے پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین بھی رہے۔ایک ماہر تعلیم کی حیثیت سے انہوں نے 1955ء سے لے کر 1958ء تک کراچی یونیورسٹی میں پڑھایا۔یونیورسٹی آف لیسٹر میں ریسرچ سکالر بھی رہے ہیں۔ 1983ء سے 1987ء تک آپ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ آف اکنامکس کے چیئرمین رہے۔1984ء سے 1992ء تک آپ انٹرنیشنل سنٹر فار ریسرچ اِن اسلامک اکنامکس لیسٹر کے ایڈوائزری بورڈ کے ارکان رہے ہیں جبکہ1979 ء سے 1983 ء تک شاہ عبد العزیز یونیورسٹی جدہ کے وائس پریزیڈنٹ رہے۔
دوران تعلیم پڑھنے کے ساتھ ساتھ ذاتی لائبریری میں اچھی کتب جمع کرنے کا شوق بھی رہا اور طالب علمی کے زمانے ہی سے ان کے پاس اچھی خاصی لائبریری رہی۔ 1965ء میں، ان کے پاس 20ہزار کتابیں تھیں جن میں سے کچھ اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی کو عطیہ کیں۔ لندن میں بھی ان کے پاس 7یا 8ہزار کتابیں تھیں جن کا بیشتر حصہ اسلامک سنٹر فاؤنڈیشن کو عطیہ کیا اور یہاں بہت سی کتب انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹیڈیز اسلام آباد کے سپرد کیں۔
پروفیسر صاحب نے اسلام، تعلیم، عالمی اقتصادیات اور اجتماعی اسلامی معاشرے کے حوالے سے بہت سا کام کیا اور اسی وجہ سے انہیں بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔ان کی علمی خدمات کے اعتراف میں متعدد ممالک، اداروں اور تنظیموں کی طرف سے بہت سے اعزازات دیئے گئے۔
آپ سوسے زائد بین الاقوامی کانفرنسوں اور سیمینارز میں ذاتی یا نمائندہ کی حیثیت سے شریک ہوچکے ہیں۔ پہلی مرتبہ اسلامی معاشیات کو بطورعلمی شعبہ کے ترقی دی۔ اس کارنامے کے پیش نظر 1988ء میں پہلا اسلامی ترقیاتی بینک ایوارڈ عطاکیا گیا۔ آپ کے کارناموں کے اعتراف میں 1990ء میں شاہ فیصل بین الاقوامی ایوارڈ عطاکیا گیا۔ اسلامی اقتصادیات ومالیات کے شعبے میں خدمات کے اعتراف میں انہیں جولائی 1998ء میں پانچواں سالانہ امریکن فنانس ہاؤس لاربوٰ یوایس اے پرائز دیا گیا۔
پروفیسر خورشید احمد صاحب کو اقتصادیات اسلام میں گراں قدر خدمات انجام دینے پر اسلامی بنک نے 1990ء میں اعلیٰ ترین ایوارڈ دیا،جبکہ بین الاقوامی اسلامی خدمات انجام دینے پر سعودی حکومت نے 1990ء میں انہیں شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا۔ اس کے علاوہ حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں اعلیٰ سول ایوارڈ نشانِ امتیاز 2010ء میں عطا کیا۔
پروفیسر خورشید احمد پر ملائشیاء ترکی اور جرمنی کی ممتاز جامعات میں پی ایچ ڈی کے مقالات لکھے گئے ہیں۔ 1982ء میں ان کی تعلیمی و تحقیقی خدمات کے اعتراف میں ملائے یونیورسٹی آف ملائشیاء نے، 1983ء میں تعلیم پر لغبرہ یونیورسٹی (لوف بورو) برطانیہ نے، 2003ء میں ادبی شعبہ میں اور نیشنل نیشنل یونیورسٹی ملائشیاء نے 2006ء میں انہیں اسلامی معاشیات پر پی اے یچ ڈی۔ کی اعزازی ڈگریاں عطا کی ہیں۔
پروفیسر صاحب متعدد نظریاتی موضوعات پر مبنی رسائل وجرائد کی ادارت کرچکے ہیں۔ آپ نے اردو اور انگریزی میں ستر کتابیں تصنیف کی ہیں۔ کئی رسائل میں اپنی نگارشات عطا کر چکے ہیں۔ دوسری بہت سی مصروفیات کے علاوہ فی الوقت آپ جماعت اسلامی کے ترجمان ماہنامہ ترجمان القرآن کے مدیر ہیں۔
پروفیسرخورشید دو اداروں کے بانی چیئرمین ہیں۔ ایک انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز اسلام آباد، دوسرا لیسٹر(یوکے)کی اسلامک فاؤنڈیشن۔ اسلامک سنٹر زاریا (نائجیریا)،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، فاؤنڈیشن کونسل، رائل اکیڈمی فار اسلامک سولائزیشن عمان(اردن)کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن جبکہ اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی اور لاہور کے وائس پریذیڈنٹ ہیں۔
پروفیسر خورشید احمد
عالمی تحریک اسلامی کے ممتاز مفکر و مدبر ،ماہر اسلامی معیشت و تعلیم ، مصنف و محقق پروفیسرخورشید احمد(۱۹۳۲ء) کا شمار ان عالمی رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے پاکستان اور امت مسلمہ کے ترجمان کی حیثیت سے نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ مغرب میں اپنے فکری اور تصنیفی کام کی بدولت اعلیٰ مقام حاصل کیا ۔پاکستان میں بطور ممبر سینٹ آف پاکستان اپنے ۲۲سالہ دور میں انہوں نے جمہوریت، دستور و قانون سازی ، نفاذ شریعت، قومی سلامتی ، معیشت، تعلیم ، خارجہ پالیسی اور دفاع وطن پر فکر انگیز خطابات کے ذریعے سینٹ آف پاکستان کے فیصلوں کو متاثر کیا ۔
راقم الحروف کو ۱۹۹۲ء تا ۲۰۱۲ء ( ایک مختصر وقفے کے سوا جب ۱۹۹۹ء میں جنرل پرویزمشرف کے مارشل لاء کے نتیجہ میں سینیٹ آف پاکستان کو چار برس معطل رکھا گیا) پروفیسرخورشید احمد کی سینیٹ آف پاکستان میں کی گئی تقاریر، تحریکات التواء، توجہ دلاؤ نوٹس اور اہم سوالات کو جمع اور ترتیبو تدوین کا موقع ملا ۔ عمومی طور پر ہر سال سینیٹ کا اجلاس اوسطاً ۱۰۰دن ہوا ہے اور ہر دن کی روداد کم از کم بیس صفحات اور زیادہ سے زیادہ تین سوصفحات پر مشتمل رہی ہے اس میں سے پروفیسرخورشید احمد صاحب کی تقاریر، تحریکات التواء و استحقاق ، توجہ دلاؤ نوٹس اور سوالات کو تلاش کر کے موضوعاتی ترتیب دی گئی ۔جمع ہونے والے لوازمہ کو مندرجہ ذیل موضوعات میں تقسیم کر دیا گیا۔ معیشت ،ملکی سیاست،دستور و قانون سازی،عالمگیریت و دہشت گردی کے خلاف جنگ اور پاکستان کی خارجہ پالیسی اورپاکستان کے سماجی مسائل۔
پروفیسر صاحب کی تقاریر پر کام کرتے ہوئے ایک خوشگوار کیفیت کا پیدا ہونا لازمی عنصر ہے، پروفیسر صاحب جب بھی کوئی بات کرتے ہیں یا کسی موضوع پر اپنا مؤقف پیش کرتے ہیں تو اس میں منطق، استدلال،تجزیہ او ر تجویز شامل ہوتی ہے ۔ان کی تقاریر میں فضولجذباتیت، متشدد لہجہ اور ہوائی باتیں نہیں ہوتیں بلکہ شائستگی، ادب ، لہجے میں ٹھنڈا پن ، مخاطب کے ساتھ ہمدردی، سمجھانے والا انداز ،اپنی بات کا یقین اور جو بات کہہ رہے ہیں ، جس موضوع پر کہہ رہے ہیں اس کی گہرائی و گیرائی یہ ظاہر کرتی ہے کہ پروفیسر صاحب بھرپور تیاری اور مطالعہ کے ساتھ ایوان میں آئے ہیں۔ پروفیسر خورشیدا حمد کے لہجہ میں ان کے پیشہتدریس سے وابستگی کی جھلک نظر آتی ہے ، وہ ایک سیاست دان ہونے کے باوجود گولمول بات نہیں کرتے ، ہوائیاں نہیں چھوڑتے ، سبز باغ نہیں دکھاتے، مخالفین کو نیچا دکھانا ان کا مقصد نہیں ہوتا یا مخالفت برائے مخالفت کبھی بھی پروفیسرخورشید صاحب کی تقاریر میں ہم نہیں ڈھونڈ سکے۔ یہ ضرور ہے کہ سینیٹ آف پاکستان کی رودادوں میں بارہا یہ منظر رقم ہے ایک مؤدب ، منطقی،دستور و قانون، قرآن و سنت ، روایاتوثقافت، تہذیب و شائستگی اور استدلال کے ساتھ بات کرنے والے شخص کے مقابل شور مچایا گیا ، ڈیسک بجائے گئے اور انہیں بات کرنے سے روکا گیا ۔لیکن اس کے باوجود یہ پر عزم شخص کھڑا رہا ، اپنی بات پوری کی اور اس کی شائستگی اور صبر نے مخالفین کو خاموش ہونے پر مجبور کر دیا پھر اس نے اپنی بات مکمل کی، انہیں سمجھایا ، مسئلے کو سلجھانے کے لیے حب الوطنی پر مبنی تجاویز دیں ،لیکن مفادات سے وابستہ گروہ جب اپنی آنکھیں ، کان اور دل بند کر لیتے ہیں ان سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے اپنی بات کر لی ہے اب اکثریت کی بنیاد پر تم جو چاہو فیصلہ کرو۔تقریباً ۲۲سال کی سینیٹ کی رودادوں میں پروفیسر خورشید احمد جگہ جگہ آپ کو دستور و قانون کی حمایت اور تحفظ میں کھڑے ہوئے نظر آئیں گے۔ وہ جمہوری روایات کے علمبردار ، پارلیمنٹ، عدلیہ اور دستور کی بالادستی کے ہر اول دستے کے قائدین میں نمایاں ہیں ، کوئی ایک تقریر یا ایک جملہ ایسا نہیں ملے گا جہاں پروفیسر صاحب کسی مفاد کے تحت کمزوری دکھائیں ، جن لوگوں کے نمائندہ رہے ہیں انہیں گمراہ کریں یا پاکستان کے مفادات پر آنے والی آنچ کی چنگاریوں کی راہ میں ڈھال نہ بنے ہوں۔
پروفیسر خورشید احمد اپنے خاندانی و تعلیمی پسِ منظر اور تحریک اسلامی سے وابستگی کے سبب دنیا کو اور اس کے مسائل کو قرآن و سنت اور عظیم اسلامی تہذیب و ثقافت کی روشنی میں دیکھتے ہیں ۔ان کی سیاسی زندگی میں جب بھی کوئی مسئلہ در پیش ہوا تو اس کے تجزیہ تحلیلوتجویز میں بنیادی نکتہ نظر جدید و قدیم علوم کی روشنی میں قائم کیا گیا اور جب بھی حزباختلاف یا حزب اقتدار کو صائب قیادت میسر آئی تو اسے سوائے ان مسائل کے جہاں ان کے اپنے مفادات وابستہ نہ تھے ۔ پروفیسر خورشید احمد صاحب کے نکتہ نظر کو قبول کرنا پڑا ۔بیشتر مواقع پر سینیٹ آف پاکستان کی کمیٹیوں میں طے پانے والے مسائل کی رپورٹ، حزباختلاف اور حزب اقتدار کے اراکین نے پروفیسرخورشید احمد ہی کو ایوان میں پیش کرنے کا اعزاز بخشا۔پروفیسر خورشید احمد صاحب کی دستوروقانون سازی کے دوران بیشتر تقاریر میں آپ کو حوالے جہاں قرآن و سنت سے ملیں گے وہاں مغربی دنیا کے بڑے بڑے اسکالرز کی بے شما رکتب جو پروفیسر صاحب کے زیرِ مطالعہ رہی ہیں صفحہنمبر، پیرا گراف نمبر، مصنف کا نام،کتاب کا نام،کوٹ ان کوٹ(Qout unqout)یہ پروفیسر صاحب کا طرز اداہے۔ میرا ایک اندازہ ہے کہ سینیٹ آف پاکستان میں خورشید صاحب کی تقاریر میں مختلف کتب، رسائل، اخبارات،رپورٹس،خطوط وغیرہ کے سینکڑوں نہیں ہزاروں حوالہ جات آئے ہیں اور یہ سارے حوالہجات جب وہ تقریر کر رہے ہوتے تھے ان کے ساتھ ہوتے تھے اور وہ دوران تقریر صدر نشین کو ان کے اصل حوالہ جات ،کتب ،رپورٹیں تصدیق کے لیے پیش کیا کرتے تھے۔
پروفیسر خورشید احمد ایک عظیم محبِ وطن سیاستدان اور جمہوریت پسند لیڈر ہونے کے ناطے ہمیشہ چوکس رہنے والے قائد ہیں ۔ ان کی نظر ملکی و عالمی سطح پر جاری ایک ایک کارروائی ، بیان، معاہدے، حرکت پر رہی ہے اور انہوں نے پاکستان کے دشمنوں کو کبھی بھی بلا روک ٹوک نہیں جانے دیا ۔ پاکستان کے خلاف یا پاکستان کے معاشی و دفاعی مفادات ،اسلام اور قرآن و سنت کے حوالے سے کوئی بھی مخالفانہ بیان ، خبر ،مظاہرہ، انٹرویو، جلسہ ،کانفرنس دنیا کے کسی بھی ملک میں ہو اس پر پروفیسر خورشید احمد نے پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر لازماً گرفت کی ہے اگرچہ وہ خودباخبر رہے ہیں لیکن اس سلسلہ میں وہ انتہائی خوش نصیب ہیں کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان کے دوست ، احباب، شاگرد اس توقع پر کہ پروفیسر خورشید احمد پاکستان کے خلاف ، اسلام کے خلاف یا مسلمانوں کے خلاف کسی بھی کارروائی کا ایک بہتر اور مدلل جواب دیں گے وہ اپنی اپنی جگہ خورشیدصاحب کو ایسی تمام خبروں، کتابوں، جلسوں اور بیانات کے بارے میں اطلاعات بذریعہ خطوط، ای میل، فون پہنچاتے رہے۔
پروفیسر خورشید احمد کو ضمیر کا قیدی کہا جا سکتا ہے انہوں نے طاقت، دھونس، دھاندلی، اکثریت، تشدد،جیل،مقدمہ بازی سے ڈر کر کبھی بھی اپنے مؤقف اور اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا اور جب کبھی ایسا موقعہ آیا تو اپنے اور اپنی پارٹی کے مؤقف کو زیادہ جمہوری انداز میں بلند آواز سے پارلیمنٹ اورپارلیمنٹ کے باہر پیش کیا۔میڈیا اس حوالے سے انہیں ہمیشہ احترام کی نظر سے دیکھتا رہا ، ایسے تمام بحرانی ادوار میں جہاں طاقت اور دھونس کے مقابلے میں عوامی جمہوری مؤقف کی نمائندگی کی ضرورت پڑی تو میڈیا نے ہمیشہ پروفیسر خورشید احمد صاحب کوچُنا کہ وہ آمریت کے مقابلے میں جمہوری نقطۂ نظر پیش کریں ۔
پروفیسر خورشید احمد کی تقاریر کو کتابی شکل دیتے ہوئے ہم نے ان کے تقریری انداز کو بر قرار رکھا ہے ، انگریزی کے جو الفاظ روانی میں تقاریر میں آئے ان کے مناسب متبادل استعمال کیے گئے ،تقریر کرتے ہوئے جو جملے دہرائے گئے یا آگے پیچھے ہوئے ان کو تصنیف میں ڈھالتے ہوئے سیدھا کیا گیا ہے ،ہر تقریر کے اختتام پر اس کی تاریخ درج ہے اوراہم تقاریر کی ابتداء میں اس کا پسِمنظر مختصراً بیان کر دیا گیا ہے تاکہ نفس مضمون کو سمجھنے میں آسانی رہے ۔زیرِ نظر کتاب کے ابتدائی حصہ میں پاکستان میں آمریت و جمہوریت کی کشمکش میں دستور کی پامالی اور اقتدار کے سنگھاسن پر طاقت کے بل پر قابض قوتوں سے عوام کی امانت کو چھڑانے اور اسے دوبارہ عوام کے حوالے کرنے کے جو مراحل ہیں وہ ان تقاریر سے سمجھے جاسکتے ہیں اس کے بعد ملتِ اسلامیہ اور ملتِ پاکستان کی کمزوری اور کسمہ پرسی کی ایک مختصر داستان ، تحفظ نسواں آرڈیننس کے حوالے سے سامنے آتی ہے ۔آخر میں باوجود یہ کہ عمومی قانون سازی کے موضوعات ہیں لیکن فیڈرل پبلک سروس کمیشن،سینیٹ آف پاکستان کے استحقاق ، بلوچستان کے مسائل ، لاپتہ افراد کا مسئلہ اور ڈاکٹر عبد القدیر خان کے ساتھ ہر رنگونسل کی حکومتوں اور مقتدرہ نے جو سلوک روا رکھا ۔ پروفیسر خورشید نے ہر ہر موقع پر سینیٹ میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق اور عظیم محسن کے حق میں آواز اٹھائی تاکہ ان پر دستور و قانون کی رو سے جاری ظلم و زیادتیوں کا ازالہ ہو سکے ۔ مگر ؏
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
میرے لیے یہ انتہائی خوش بختی کی بات ہے کہ مجھے پروفیسر خورشید احمد صاحب جیسے بینالاقوامی سطح کے پارلیمنٹیرین، جمہوری سیاستدان اور عالمی تحریک اسلامی کے رہنما کی تقاریر کو جمع و تدوین کا موقع ملا ۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں اور دست بہ دعا ہوں کہ وہ میری اس کوشش کو قبول فرمائے۔