ہائیکو، چین/اسلام آباد (شِنہوا) چین کے جنوبی صوبے ہائی نان میں یاژوخلیج سائنس و ٹیکنالوجی شہر میں بارش کے پانی سے بھرے کھیتوں میں پاکستانی پوسٹ ڈاکٹریٹ محقق قمر الزمان رین بوٹ پہنے کیچڑ میں چلتے ہوئے چاول کے پودوں کا بغور معائنہ کیا اور کبھی کبھار گہری جانچ کے لئے چاول کے کچھ خوشے توڑلیتے ہیں۔
قمر یاژو وان قومی لیبارٹری میں ایک محقق ہیں اور 2017 میں اپنی ڈاکٹریٹ کی تعلیم کے لیے چین آئے تھے اس کے بعد سے انہوں نے مختلف زرعی تحقیقاتی اداروں میں چاول کی افزائش میں مہارت حاصل کی جس میں چاول کی پھپھوندی کی بیماری(آر بی ڈی)کے خلاف لڑنے پر خاص توجہ دی اور وسیع تجربہ حاصل کیا۔
پاکستان میں اپنی مہارت کو استعمال کرنے کے خواہشمند قمر وطن واپس آنے پر چاول کی اس بیماری پر قابو پانے میں کاشتکاروں کی مدد کرنے کی مؤثر حکمت عملی تیار کرنے سے متعلق پُرعزم ہیں انہوں نے شِنہوا کو بتایا کہ پاکستان میں چاول کی پھپھوندی کی بیماری پیداوار کے لئے بڑا خطرہ ہے۔ پاکستان میں اب بھی آر بی ڈی کا مؤثر مقابلے کرنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کی کمی ہے۔
اس خلا کو پُر کرنے کے لئے قمر جدید مالیکیولر طریقوں کی مدد سے چاول کی پھپھوندی کے خلاف مزاحمت کو بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ کیمیکل پر انحصار کم کرتے ہوئے چاول کی پائیدار کاشتکاری کرکے مجموعی پیداوار بہتر بنائی جاسکے۔
قمر کے مطابق انہوں نے چین میں اپنی تحقیق کا انتخاب کیا کیونکہ یہ سائنس و ٹیکنالوجی میں مضبوط عزم رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ یاژو وان قومی لیبارٹری نے مجھے اہم وسائل اور قابل قدر تعاون کے مواقع فراہم کئے جس سے مجھے اپنی تحقیقی مقصد حاصل کرنے میں مدد ملی۔
چین اور پاکستان کے درمیان زرعی تعاون مزید گہراہونےکے ساتھ مزید پاکستانی محققین چین آ کر تعلیم حاصل کرکے کام کر رہے ہیں۔ ان میں فیصل مہدی بھی شامل ہیں جو سانیہ میں چینی اکیڈمی برائے استوائی زرعی سائنس کے ماتحت گنے کے تحقیقی مرکز میں گنے کی افزائش پر تحقیق کر رہے ہیں۔
فیصل نے کہا کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مشترکہ تحقیقاتی منصوبوں پر کام کررہےہیں جو مالیکیولر افزائش، پودوں کی بیماریوں اور بائیو انفارمیٹکس میں ہماری مہارت کو یکجا کررہا ہے۔
ان کے ساتھی احمد علی بھی زرعی اختراع، تحقیق اور ٹیکنالوجی میں چین کی قیادت کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چین کے پاس بہترین لیبارٹری سہولیات اور شاندار تدریسی عملہ ہے یہ واقعی خاص کر زرعی سائنسدانوں کے لیے ایک موقع کی سرزمین ہے۔
مرکز کے ڈائریکٹر چھوئے یو شیانگ نے کہا کہ گنے کے تحقیقاتی مرکز میں 5پاکستانی پوسٹ ڈاکٹریٹ محقق مختلف تحقیقاتی گروپوں میں کام کررہے ہیں۔ مرکز نے پاکستان میں کئی جامعات اور تحقیقاتی اداروں کے ساتھ شراکت داری قائم کی ہے ہم مستقبل میں جینیاتی وسائل کے تبادلے اور مشترکہ تحقیق و ترقی میں تعاون میں اضافے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
