اسلام آباد ڈائری فائنل
محسن رضا خان
31 جنوری گزر گیا لیکن پی ڈی ایم کی ڈیڈ لائن کے مطابق وزیراعظم عمران خان مستعفی نہیں ہوئے صرف بلاول بھٹو زرداری نے بیان جاری کیا ہے کہ عمران خان نے اقتدار سے علیحدگی کا با عزت موقع کھو دیا ہے سما جی روابط کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے بیان میں
منتخب وزیر اعظم PDM کے ذریعہ طے شدہ آخری تاریخ تک مستعفی ہونے میں ناکام رہے ہیں۔ اس ناجائز حکومت کو یہ موقع دیا تھا کہ وہ احترام کے ساتھ ایک طرف ہوجائے اور آزادانہ ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے ساتھ جمہوریت میں منتقلی کی اجازت دے۔
عوام کو تاریخی ، غربت ، بے روزگاری اور مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس حکومت نے ان پر مجبور کیا۔ مشترکہ اپوزیشن کو اب کٹھ پتلیوں کو ہٹانے پر مجبور کرنا ہوگا۔ پیپلز پارٹی جمہور ی طریقوں پر پر یقین رکھتی ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کی مشترکہ کوششیں حتمی طور پر کامیاب ہوں گی
لانگ مارچ اور عدم اعتماد پر ہماری PDM میٹنگ میں غور کیا جائے گا ۔ حکومتوں کی مایوسی واضح ہے۔ سینیٹ انتخابات میں دھاندلی کے اصولوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ وہ اپنی شکست دیکھ سکتے ہیں۔ انشا اللہ سینیٹ کے انتخابات سے یہ ظاہر ہوگا کہ حکومت کمزور ہے۔ ان کے اس بیان کے بعد ٹویٹر پر وزیراطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ
پی ڈی ایم کی31جنوری کی ڈیڈ لائن گزگئی استعفے دینے کی کھوکھلی دھمکی بھی آشکار ہوگئی۔ قوم کو پتہ چل گیا کہ ان کا ایجنڈا ذاتی مفاد اور ہوس اقتدار ہے۔ اپوزیشن کی حسرتیں اور سازشیں دم توڑ گئیں۔ عوام نے اپوزیشن کے ہرقول و فعل کو یکسر مسترد کر کے منتخب جمہوری حکومت کا ساتھ دیا۔ایک سینئر تجزیہ نگار نے اپنے ٹویٹ میں صورتحال کا تجزیہ کچھ اس انداز میں کیا
آج کےبعدبلاول بھٹواوراپوزیشن کےدیگراراکین اسمبلی اسی طرح سرجھکاکرایوان میں جائیں گےجسطرح دھرنوں اوراستعفوں کےبعدعمران خان اوراسدعمروغیرہ سرجھکا کراسمبلی میں واپس گئےتھے ۔خواجہ آصف کی طرح آج پی ٹی آئی والوں کےپاس جوازہےکہ وہ انہیں طعنہ دیں کہ کوئی شرم ہوتی ہے،کوئی حیا ہوتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان پہلے ہی کہ چکے ہیں پی ڈی ایم کی تحریک ختم ہوچکی ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ جس زور اور شور سے گیارہ جماعتوں نے عمران خان کی حکومت کے دو سال بعد خواب غفلت سے بیدار ہوکر انگڑائی لی تھی وہ بہت موثر اور خطرناک تحریک بنتی جارہی تھی جس میں عمران خان حکومت کے ساتھ مقتدر حلقوں کا بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن اب مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ ہماری ایسٹبلشمنٹ کے ساتھ جنگ نہیں اس سے گلے اور شکوے ہیں اور گلے شکوے اپنوں سے ہوتے ہیں لگتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا سافٹ وئیر اپ ڈیٹ ہوگیا ہے لیکن ان کی جدوجہد ختم نہیں ہوئی پیپلزپارٹی کے یو ٹرن لیکر پی ڈی ایم کی تحریک کو پس پشت ڈال کر اپنے سیاسی مفادات اور لیڈروں کو بچانے کے لئے جو حکمت عملی اختیار کی گئی اس میں اب بھی عمران خان حکومت کے خلاف زبانی جمع خرچ جاری ہے لیکن اس قومی یو ٹرن کے بعد اپوزیشن کی تمام جماعتیں جو اسمبلیوں سے استعفوں کے لئے تیار تھیں اب عملا سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے تیار ہوچکی ہیں البتہ مشترکہ طور پر انتخابات میں حصہ لینے کے تجویز زیر غور ہے اور 4 فروری کو پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں اس پر بات ہوگی پیپلزپارٹی پارٹی پنجاب سے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں لانا چاہتی ہے اس ضمن میں اپوزیشن کے اتحاد کو بچانے کے لیے مسلم لیگ نون کو پنجاب میں سینیٹ کی ایک نشست کے لئے پیپلزپارٹی کا ساتھ دینا ہوگا لیکن سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے کے لئے حکومت بہت بے چین ہے اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ سینیٹ کے گزشتہ انتخابات میں مبینہ طور پر ووٹ فروخت کرنے والے 20 ارکان خیبر پختون خوا اسمبلی کو پارٹی سے عمران خان نے نکال دیا تھا ان نکالے گئے ارکان میں سے ایک رکن اسمبلی نے 4 کروڑ روپے میں فروخت کرنے کا اعتراف کیا تھا لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس کام میں مقتدر حلقوں کی انہیں پشت پناہی حاصل تھی اور جب ان کے خلاف کارروائی ہونے لگی تو وہ مقتدر حلقوں کی ایما پر مقتدر حلقوں کے زیر اثر ایک اور جماعت میں شامل کرادیے گئے تاکہ انہیں تحفظ مل سکے وفاقی حکومت نے پہلے سپریم کورٹ میں ریفرینس داخل کردیا لیکن اب حکومت نے آئینی ترمیم بھی اسمبلی میں پیش کرنے کی تیاریاں کرلی ہیں لیکن غالب امکان ہے کہ اس آئینی ترمیم کو کامیابی نہیں مل سکے گی کیونکہ اپوزیشن اس معاملے پر حکومت کی حمایت نہیں کرے گی اپوزیشن کا موقف ہے کہ وہ انتخابی نظام میں مکمل اصلاحات چاہتی ہے اور ڈھائی سال میں حکومت نے اس سلسلہ میں پیش رفت نہیں کی اب حکومت مشکل میں پھنسی ہے تو انہیں سینیٹ کے انتخابات میں اوپن بیلٹ کی فکر پڑ گئی ہے کیونکہ مبینہ طور پر پنجاب میں 20 سے زائد حکومتی جماعت کے ارکان اسمبلی کا ایک گروہ کا مطالبہ ہے کہ سینیٹ کا ایک رکن ان کی مرضی کا لایا جائے وزیر اعظم عمران خان جن کا موقف تھا کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کو ترقیاتی فنڈ دینا کرپشن ہے وہ قومی اسمبلی کے حکومتی ارکان کو فی رکن 50 کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈ دینے پر آمادہ ہوگئے ہیں ساہیوال میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پیسے لگا کر سینیٹر بننے والا پیسے نہیں بنائے گا سینیٹ انتخابات میں اوپن بیلیٹنگ کے لئے آئینی ترمیم لارہے ہیں کہا جارہا ہے سینیٹ کی نشستوں کی خریدوفروخت شروع ہوچکی ہے اور اس وقت ریٹ 60 کروڑ روپے تک پہنچ چکا ہے