اسلام آباد (سٹی رپورٹر)سسٹین ایبل سوشل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) کی جانب سےپاکستان میں صنفی بنیاد پر تشدد کی نقشہ سازی، عصمت دری، اغوا اور غیرت کے نام پر قتل کا ضلعی سطح پر مرتب کردہ جامع تجزیاتی رپورٹ کی نقاب کشائی نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں کی گئی،رپورٹ کے مطابق ملک کی پچاس فیصد سے زائد آبادی پر مشتمل خواتینکو آبرو ریزی،اغواء،غیرت کے نام پر قتل جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے،آبرو ریزی کے کیسز میں پنجاب سر فہرست رہا جبکہ سندھ میں خواتین کے اغواء کے سب سے زیادہ کیسز ریکارڈ ہوئے،نیشنل پریس کلب اسلام آبادمیںرپورٹ جاری کرتے ہوئے سسٹین ایبل سوشل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) کےایگزیکٹو ڈائریکٹر سید کوثر عباس نے بتایا کہ بہترین تعلیم و تربیت کی فراہمی کسی بھی معاشرے کے اعلی ہونے کی دلیل ہے،ملک کی پچاس فیصد سے زائد آبادی خواتین پر مشتمل ہے،جنھیں آبرو ریزی،اغواء،غیرت کے نام پر قتل جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے،آبرو ریزی کے کیسز میں پنجاب سر فہرست رہا، ملک بھر میں 7010 کیسز میں سے 6624 کیسز پنجاب میں رونما ہوئے،سندھ میں خواتین کے اغواء کے سب سے زیادہ کیسز ریکارڈ ہوئے،جن کی تعداد 1666 رہی،غیرت کے نام پر قتل کی جانے والی خواتین کےرپورٹ کیے گئے کیسز میں سندھ پہلے نمبر پر رہا،صوبے میں 258 واقعات رپورٹ ہوئے جو کہ پاکستان میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے تقریباً نصف ہیں۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے خواتین اور ان کے لواحقین کو تحفظ ،سرپرستی اور یقینی انصاف فراہم کرکے سنگین نوعیت کے جرائم پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔،اس موقع پر پالیسی سازوں، صنفی ماہرین اور سول سوسائٹی کے اراکین سمیت اہم اسٹیک ہولڈرز کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید کوثر عباس نے بتایا کہ یہ رپورٹ صوبائی پولیس محکموں میں درج درخواستوں سے حاصل کیے گئے اعدادوشمار پر مشتمل ہے۔ جو 2023 کے دوران پنجاب، سندھ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں رپورٹ ہونے والے جی بی وی کیسز کا تجزیہ کرتی ہے،اگرچہ صوبائی پولیس کی جانب سے رپورٹ کیے گئے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، تاہم مزید ہزاروں واقعات کے غیر دستاویزی ہونے کا امکان ہے۔سید کوثر عباس نے بتایا کہ رپورٹ میں عصمت دری، اغوا اور غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خواتین کے اعداد و شمار پریشان کن ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ آبرو ریزی کے کیسز میں پنجاب سر فہرست رہا، ملک بھر میں 7,010 کیسز میں سے 6,624 کیسز پنجاب میں رونما ہوئے،جس کا شرح تناسب 94.5 فیصد رہا،جو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں عصمت دری کے زیادہ تر واقعات پنجاب میں رونما ہوئے۔دوسری جانب سندھ میں 188، خیبر پختونخوا میں 187، اور بلوچستان میں عصمت دری کے11 واقعات رپورٹ ہوئے، خواتین کے اغوا کیسز سب سے زیاد سندھ میں رپورٹ ہوئے،جہاں 1666 خواتین کو اغوا کیا گیا جو کہ ملک بھر میں ہونے والے کل اغوا کا 56.4 فیصد ہے۔جب کہ پنجاب میں 562 کیسز، بلوچستان میں 163 اور خیبرپختونخوا میں 36 کیسز رپورٹ ہوئے۔سید کوثر عباس نے بتایا کہ سندھ میں غیرت کے نام پر قتل خواتین کے عدم تحفظ کے شدید فقدان کو ظاہر کرتا ہے،صوبے میں 258 واقعات رپورٹ ہوئے جو کہ پاکستان میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے تقریباً نصف ہیں۔جب کہ خیبرپختونخوا میں 129، پنجاب میں 120 اور بلوچستان میں 26 کیسز رپورٹ ہوئے۔انھوں نے کہا کہ صوبوں میں رپورٹ ہونے والے کیسز میں وسیع تفاوت اس بات کی نشاندہی نہیں کرتا کہ سندھ، خیبر پختونخواہ یا بلوچستان جیسے علاقوں میں خواتین کے خلاف تشدد کم پایا جاتا ہے۔بلکہ یہ سماجی بدنامی، خوف، اور خاندان والوں کی عدم سرپرستی کی بنا پر رپورٹ نہ ہونے والے کیسز کی نشاندہی کرتا ہے ۔سید کوثر عباس نے کہا کہ یہ رپورٹ صوبوں میں صنفی بنیاد پر کیے گئے تشدد کےتاریک پہلوؤں کی عکاسی کرتی ہے۔ایس ایس ڈی او کی یہ رپورٹ صنفی بنیاد پر تشدد (GBV) کے کیسز کو ٹریک کرنے کے لیے ایک مرکزی قومی ڈیٹا بیس سیل قائم کرنے کی سفارش کرتی ہے، جو ایک عوامی ویب سائٹ اور موبائل ایپ کے ذریعے قابل رسائی ہو۔ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان حساس نوعیت کے کیسز کو سنجیدگی سے لیا جائے،جس کے لیے پولیس کو خصوصی تربیت دی جائے،بروقت مقدمات کا اندراج کیا جائے اور صاف و شفاف محکمانہ کارروائی پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔اس میں مختلف مکتبہ فکر سے وابستہ افراد کو متحرک ہونا چاہیے۔جب کہ سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کے خلاف موجود قوانین پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید کوثر عباس نےکہا کہ پنجاب، سندھ اور دیگر صوبوں میں رونما ہونے والے کیسز ظاہر کرتے ہیں کہ ان کی روک تھام کے لیے ایک منظم نظام کی ضرورت ہے،تاکہ متاثرہ خواتین کے لواحقین قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بنا کسی خوف و ڈر کے انصاف کے حصول کے لیے رابطے کر سکیں،سید کوثر عباس نے صنفی بنیاد پر تشدد سے متعلق مقدمات کے اندراج میں اضافے پر صوبائی پولیس کی تعریف کی، لیکن اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ ہزاروں مقدمات اب بھی رپورٹ نہیں ہوتے۔انہوں نے کہا کہ عدالتوں کو ان مقدمات کو ترجیحی بنیادوں پر نمبٹانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے اعداد و شمار کی شفافیت کو بہتر بنانے کی اہمیت پر مزید زور دیتے ہوئے کہا کہ قابل رسائی اعدادوشمار رپورٹ شدہ اور غیر رپورٹ شدہ کیسز کے درمیان فرق کو ختم کرنے میں مدد کرے گا اور قانون بنانے والے اداروں کو فیصلے کرنے میں مدد دے گا۔بعد ازاں پینل ڈسکشن میں کے پی کی سابق ایم پی اے شگفتہ ملک، سعدیہ مصطفےٰ، نادیہ طارق ، منیزہ بٹ، این پی سی کی سیکرٹری نیئر علی اور سینئر صحافی مائرہ عمران نے بھی حصہ لیا اور خواتین کےخلاف صنفی امتیاز اور دیگر سنگین جرائم کے حوالے سے اپنے تجزیات پیش کئے۔
