اسلام آباد()پاکستان انجینئرنگ کونسل کے سابقہ ممبر گورننگ باڈی انجینئرشیخ ظہور سرورنے کہا ہے کہ لوکل مینو فیکچررز کیلئے پاکستان انجینئرنگ کونسل کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں اور انہیں رجسٹریشن کی اجازت نہیں ہے جسکی وجہ سے ملکی درآمدات پر بوجھ ہے، کشکول توڑنے کا واحد حل لوکل مینو فیکچررز کو سپورٹ کرنا ہے،پی ای سی کےساتھ ایسے مافیا ءکی اجارہ داری قائم ہوگئی ہے جن کی ترجیح صرف ا پنے کاروبار اور ذاتی فوائد پر مرکوز ہے، ایسی پالیساں بنا دی گئی ہیں جن سے انجنیئرز کے پی ای سی لائسنس کی خریدو فروخت کا دھندہ عروج پرہے ،کوئی کنٹریکٹر، کنسلٹنٹ یا کمپنی کسی بھی گورنمنٹ کنٹریکٹ میں اس وقت تک حصہ نہیں لے سکتی جب تک وہ پی ای سی سے رجسٹرڈ نہ ہو،اربوں روپےفائیواسٹار ہوٹلوں کے کمروں کی بکنگ اور ٹی اے ڈی اےاور شاہ خرچیوں میں اڑا دئیے جاتے ہیں،کئی ممبرز کو دو دو گاڑیاںاور سینکڑوں کلو میٹر مفت پیٹرول کی سہولت دستیاب ہے،بحری جہازوں پہ بیٹھ کے سمندر کے بیچ ضیافتیں اڑائی جاتی ہیں ، تعلیم کی ترقی کے لیے ہونے والی اساتذہ کی کانفرنس میں رقص و سرود کی محفل منعقد کی جاتی ہے،شیخ ظہور سرورنے ان خیالات کا اظہار نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا،ان کا مزید کہنا تھا کہاب تک ایک لاکھ سے زائد کمپنیاں پی ای سی کیساتھ رجسٹر ہو چکی ہیں جن کی سالانہ فیس اوسطا” چار سے پانچ لاکھ روپے ہے،رجسٹریشن میں شرط ہے کہ ہر چھوٹی کمپنی اپنے پاس دو تین اور بڑی کمپنی 15 سے 20 انجینئرز کو ماہانہ نوکری پر رکھے تاہم ان کمپنیوں نے مافیا ءکے ساتھ مل کر ایسا نظام بنا لیا ہے کہ زیادہ تر کمپنیاں انجینئرز کو نوکری پر رکھنے کے بجائے انکے لائسنس ایک سال کے لیے خرید لیتی ہیں ایسی خریدو فروخت کا ریٹ سول انجنیرز کے لیے ایک لاکھ روپےسالانہ سے لے کر مکینکل اور الیکٹریکل انجینئرز کے لیے 25 ہزار روپے سالانہ تک ہے یعنی2 ہزار روپے مہینہ ایک انجنیرز کی قیمت ہے ،والدین لاکھوں روپے خرچ کر کے بچوں کو انجینئر ز بناتے ہیں اور اس مافیا نے انجنئیزز کو ماہانہ تنخواہ پر رکھنے کی بجانے یہ سالانہ دھندہ شروع کر رکھا ہے،ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ انجینئرز طے روزگارہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں نئی نسل انجینئرنگ کرنےسے نفر ت کرنے لگی ہے جہاں انجینئرنگ سٹوڈنٹ کا گراف اوپر جا رہا تھا اب تاریخ کی کم ترین سطح پہ آگیا ہےبڑی بڑی یونیورسیٹوں میں انجینئرنگ ڈیپارنمٹ بند ہونے پر آگئے ہیں،پاکستان انجنئیرنگ کونسل کی مینجمنٹ کو نہ صرف اس مکروہ کاروبار کی خبر ہے بلکہ اس گھناونے کاروبار کو مزید فوقیت دینے کہ لیے ایسی پالیساں بنا دی گئی ہیں کہ انجنئیرز ان ظالموں کے چنگل میں پھنے رہیں ایک غیر انسانی پالیسی جوبنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے اس کے مطابق جب ایک انجنیئر ایک کمپنی کے ساتھ بائیو میٹرک کروا دے پھر ایک سال تک نہ استعفی دے سکتا ہے اور نہ کسی اور کمپنی کے ساتھ نوکری کر سکتا ہے،شیخ ظہور سرور نے مزید کہا کہ پی ای سی میں ہونے والے کرپشن اور شاہ خرچیوںپر آواز اٹھانے کی پاداش میں مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں،میں جانے سے پہلے بہت کچھ بتا کر جاونگا،یہ بہت مضبوط مافیا ہے،چھ ماہ قبل ہمارے ایک ساتھی انجینئر اسسٹنٹ رجسٹرار کو بیوی سمیت گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا،انہوں نے مطالبہ کیا کہ قانون کے مطابق پی ای سی کا فنانشل آڈٹ کرنے کا اختیار آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو دیا جائے،نوجوان انجینئرز خصوصا” خواتین انجینئرز کوقانون کے تحت چھ چھ مخصوص نشستیں دی جائیںتاکہ نوجوان انجینئرز گورننگ باڈی کیساتھ مل بیٹھ کر اپنے مسائل کو حل کر سکیں،پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کو تمام الزامات کے تصویری ثبوت دکھائے گئے۔
