وفاقی بجٹ میں ٹیکس بنیاد کو وسیع کرنے، معیشت کی دستاویز بندی پر توجہ دی گئی ہے ، کم آمدنی والے طبقات کو تحفظ فراہم کیا گیا،GST کو 19 فیصد کرنے کی تجویز زیر غور نہیں ، PLD کا اطلاق بتدریج کیا جائے گا، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب

وفاقی بجٹ میں ٹیکس بنیاد کو وسیع کرنے، معیشت کی دستاویز بندی پر توجہ دی گئی ہے ، کم آمدنی والے طبقات کو تحفظ فراہم کیا گیا،جی ایس ٹی کو 19 فیصد کرنے کی تجویز زیر غور نہیں ، پی ایل ڈی کا اطلاق بتدریج کیا جائے گا، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب

اسلام آباد۔13جون (اے پی پی):وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے، معیشت کی دستاویز بندی اور ڈیجیٹائزیشن پر توجہ دی گئی ہے ،جنرل سیلز ٹیکس کو 18 فیصد سے بڑھا کر 19 فیصد کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے، پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کا اطلاق فوری طور پر نہیں بلکہ بتدریج کیا جائے گا، جی ڈی پی اور افراط زر کے اہداف حقیقی ہیں، 12 ہزار ارب کی لیکیجز کو بند کرنے کے لیے اقدامات کا سلسلہ جاری ہے، بجٹ میں کم آمدنی والے طبقات کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے،نجکاری کے عمل پر اتحادی جماعتوں کے ساتھ مشاورت سے معاملات آگے بڑھائے جا رہے ہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف سطح کا معاہدہ جولائی تک ہونے کی امید ہے، نان فائلرز کی اختراع کو ملک سے ختم کرنا ہو گا ۔ جمعرات کو وزیر مملکت علی پرویز ملک، سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال اور چیئرمین ایف بی آر امجد زبیر ٹوانہ کے ہمراہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے پر توجہ دی گئی ہے، پاکستان میں اس وقت جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح 10 فیصد کے قریب ہے جو پائیدار نہیں ہے، آئندہ دو تین برسوں میں جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح 13 فیصد تک لے جانے کی کوشش کریں گے، غیردستاویزی معیشت کا خاتمہ بھی حکومتی ترجیحات میں شامل ہے، اس مقصد کے لیے ڈیجیٹلائزیشن کا عمل آگے بڑھایا جا رہا ہے، اس سے ٹیکس کے نظام میں انسانی مداخلت کو کم کیا جائے گا جس سے نہ صرف ریونیو میں اضافہ ہوگا بلکہ شفافیت بھی آئے گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ زیادہ آمدنی والوں پر زیادہ اور کم آمدنی والے طبقات پر کم ٹیکس لگایا گیا ہے، نان فائلرز کے لیے کاروباری ٹرانزیکشن پر ٹیکس کی شرح میں نمایاں اضافہ کیا گیا ہے اور بعض مقامات پر اس شرح کو 45 فیصد تک بڑھا دیا گیا ہے، ہمیں نان فائلرز کی اختراع کو اس ملک سے ختم کرنا ہوگا، بجٹ میں کم آمدنی والے طبقات کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ وہ پانچ بنیادی اصول ہیں جن کی بنیاد پر بجٹ ترتیب دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی حد 60 روپے سے بڑھا کر 80 روپے کرنے کی تجویز ہے، یہ پہلے دن سے نہیں لگائی جائے گی اور یہ اضافہ بتدریج ہوگا، اس حوالے سے حکومت تیل کی قیمت کی نگرانی کرے گی تاکہ لوگوں پر کم سے کم بوجھ ڈالا جا سکے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ تنخواہوں کے سلیب میں 50 ہزار ماہانہ تنخواہ پر ٹیکس استثنا برقرار ہے، اسی طرح ٹاپ سلیب پر بھی ٹیکس کی شرح میں تبدیلی نہیں کی گئی ہے، اعدادوشمار اگرچہ مجموعی طور پر بڑھائے گئے ہیں تاہم انفرادی طور پر بوجھ زیادہ نہیں ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ریٹیلرز کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانا ضروری ہے تاکہ دیگر طبقات پر ٹیکسوں کا بوجھ کم ہو، اپریل میں رضاکارانہ رجسٹریشن کے تحت صرف 75 تاجروں نے رجسٹریشن کرائی تھی، مئی میں ایف بی آر نے چھ شہروں میں اقدامات شروع کئے جس کے نتیجے میں اب تک 31 ہزار ریٹیلرز کی رجسٹریشن ہو چکی ہے، یہ عمل جاری رہے گا اور یکم جولائی سے ریٹیلرز پر ٹیکس کا اطلاق ہو جائے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اس وقت 9 ٹریلین روپے کی کرنسی کی زیر گردش ہے، ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے معاملات درست ہو سکتے ہیں، ہماری کوشش ہے کہ کیش ٹرانزیکشن کو کم سے کم اور ختم کیا جائے، پوائنٹ آف سیل رجسٹریشن کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا جائے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ فری لانسرز کے حوالے سے پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے، آئندہ مالی سال کے بجٹ میں آئی ٹی کے فروغ کے لیے کرنٹ اور ڈویلپمنٹ دونوں محاذوں پر نمایاں فنڈز مختص کئے گئے ہیں۔ ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جائے گا، اس وقت ہماری آئی ٹی کی برآمدات 3.5 ارب ڈالر ہیں جس کو 7 سے لے کر 8 ارب ڈالر تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کے لیے جو فنانسنگ ہونی چاہئے تھی وہ نہیں ہوئی، چھوٹے کاروبار کے لیے بینکوں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، گزشتہ چند ہفتوں سے ہماری گورنر سٹیٹ بینک اور پاکستان بینکرز ایسوسی ایشن کے ساتھ اس حوالے سے میٹنگز ہوئی ہیں، ان میٹنگز میں زراعت، آئی ٹی اور ایس ایم ایز کے لیے فنانسنگ پر بات چیت ہوئی، ان شعبہ جات کے لیے بجٹ سبسڈیز کے تحت بھی رقوم مختص کی گئی ہیں، ایس ایم ایز کے فرسٹ لاس کی گارنٹی حکومت دے گی، اسی طرح ایکسپورٹ فنانسنگ کا شعبہ اب ایگزم بینک کو منتقل ہونے جا رہا ہے جس سے ایس ایم ایز کو فائدہ پہنچے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ سرکاری شعبہ کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں جاری منصوبوں پر توجہ دی گئی ہے اور 81 فیصد فنڈز ان منصوبوں کے لیے مختص ہیں جو تکمیل کے قریب ہیں، نئے منصوبوں کے لیے فنڈز مختص کرنے کی شرح 19 فیصد ہے، اس میں دیامیر، داسو اور بھاشا ڈیم جیسے منصوبے شامل ہیں۔ ایک سوال پر وزیر خزانہ نے کہا کہ ڈی اے پی پر ٹیکس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے، درآمدی ٹریکٹرز پر 10 فیصد ٹیکس میں سے 7 فیصد ٹیکس پہلے سے لاگو تھا اور حقیقی اضافہ صرف 3 فیصد کے قریب ہے۔ انہوں نے کہا کہ 12 ہزار ارب کی لیکیجز کو بند کرنے کے لیے اقدامات کا سلسلہ جاری ہے، ٹریک اینڈ ٹریس اچھا نظام تھا مگر اس میں بعض مسائل موجود ہیں، اسی طرح پی او ایس میں بھی بعض مسائل تھے، سب سے زیادہ لیکیجز سیلز ٹیکس میں ہیں، ڈیجیٹلائزیشن کا عمل جیسے ہی آگے بڑھے گا تو ریونیو میں اضافہ ہوگا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ لوگوں کے طرز زندگی کا ڈیٹا موجود ہے، اس خام ڈیٹا کو ہم فیلڈ فارمیشنز میں نہیں بھیج سکتے، اس مقصد کے لیے ہم نے ڈیٹا اینالٹک کے مقاصد کے لیے ٹیم بنائی ہے جو اس ڈیٹا کا تجزیہ کرے گی اور اس کے مطابق فیلڈ فارمیشنز کو نفاذ کے لیے ہدایات جاری کی جائیں گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مجموعی وصولیوں کے حوالے سے ہم صوبوں کے ساتھ مشاورت کر رہے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے، اٹھارہویں ترمیم کے تحت جو وزارتیں اور محکمے صوبوں کو منتقل ہوئے تھے، وہ بند کرنے چاہئے تھے جو ہم نے نہیں کئے، غیرضروری اخراجات پر قابو پانے کے لیے اقدامات کا سلسلہ جاری ہے، پی ڈبلیو ڈی کو بند کرنے کے حوالے سے فیصلہ ہو چکا ہے، آنے والے مہینوں میں اس حوالے سے مزید اقدامات کئے جائیں گے، صوبے اگر مرکز کا بوجھ بانٹیں گے تو اس سے ہمارے لیے مالی گنجائش پیدا ہوگی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پالیسی ریٹ میں کمی کی گئی ہے اور اسی کی بنیاد پر آئندہ مالی سال کے دوران افراط زر کی شرح 12 فیصد کے قریب رکھی گئی ہے جو حقیقی ہے۔ نجکاری پروگرام کے حوالے سے سوال پر وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم تمام فریقوں کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں، پی آئی اے اور اسلام آباد ایئرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ کے حوالے سے اقدامات کا سلسلہ جاری ہے، اسلام آباد ایئرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ کا عمل اگست تک مکمل ہو جائے گا، وزیراعظم نے اسلام آباد کے بعد لاہور اور کراچی ایئرپورٹس کے ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کی ہدایت کی ہے، بجلی اور توانائی کے شعبے میں بھی اقدامات جاری ہیں، ڈسکوز کے کارپوریٹ گورننس میں بہتری لائی جا رہی ہے، ڈسکوز کے بورڈز میں نجی شعبہ کو لایا جا رہا ہے، نجکاری کے پروگرام پر ہماری تمام اتحادی جماعتوں کے ساتھ مشاورت جاری ہے۔ آئی ایم ایف سے متعلق سوال پر وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہماری ورچوئل بات چیت جاری ہے، اس حوالے مثبت پیش رفت ہوئی ہے، ابھی تک ہماری جو بھی بات چیت ہوئی ہے وہ مثبت سمت میں ہے، اس حوالے سے ہم نے اتحادی جماعتوں کو پریزنٹیشن بھی دی ہے، ہمیں امید ہے کہ سٹاف سطح کا معاہدہ جولائی تک ہو جائے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ جی ایس ٹی کو 18 سے 19 فیصد کرنے کی کوئی تجویز زیرغور نہیں ہے۔ ٹیکس قوانین میں تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کا جو ہدف مقرر کیا گیا ہے، تمام تر اقدامات اس کے مطابق کئے جا رہے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ صنعتوں کے لیے پالیسی ریٹ اور توانائی کی مسابقتی قیمتوں جیسے مسائل موجود ہیں تاہم پالیسی ریٹ میں بہتری آئی ہے اور آنے والے دنوں میں صنعتوں کے لیے اچھی خبریں آئیں گی۔ وزیر مملکت برائے اقتصادی امور علی پرویز ملک نے اس موقع پر کہا کہ حکومت کو مہنگائی سے عوام کو پہنچنے والی تکلیف کا احساس ہے تاہم اس کا پس منظر بھی دیکھنا ضروری ہے، ہم استحکام اور بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں، ماضی میں نوٹ چھاپ کر یا قرضہ لے کر خسارہ پورا کیا جاتا تھا جس سے مہنگائی میں اضافہ ہو جاتا تھا، اس سلسلے کو بتدریج ختم کرنا ہے، ہمیں مشاورت کے ساتھ بہتر راستے کا انتخاب کرنا ہے، یہ راستہ مشکل ضرور ہے مگر یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اگر یہ راستہ اختیار نہ کریں تو ملک کی کیا صورتحال ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ 50 ہزار ماہانہ تنخواہ لینے والے افراد کیلئے ٹیکس استثنا کی سہولت موجود ہے، ایک لاکھ تک تنخواہ لینے والے افراد پر ایک ہزار سے 1200 روپے تک کا بوجھ پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اصلاحات کا عمل آگے بڑھانا ہے اور ٹیکسوں کی بنیاد کو وسیع کرنا ہے، اس وقت بھی کئی ایسے شعبے ہیں جو ٹیکس نہیں دے رہے، ان شعبوں کو آمدنی پر ٹیکس دینا ہو گا، رئیل اسٹیٹ کے شعبہ کو بھی دستاویزی بنانے کیلئے بھی اقدامات کئے جا رہے ہیں، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلئے ریکارڈ بجٹ مختص کیا گیا ہے، علاوہ ازیں سبسڈیز میں بجلی کے شعبہ کا حصہ زیادہ ہے اور اس کا زیادہ تر حصہ پروٹیکٹڈ صارفین پر خرچ ہو گا جو 200 یونٹ تک بجلی استعمال کر رہے ہیں، کم سے کم تنخواہ 37 ہزار روپے کر دی گئی ہے جبکہ یوٹیلٹی سٹورز کیلئے بھی بجٹ میں فنڈز میں اضافہ کیا گیا ہے۔ علی پرویز ملک نے کہا کہ کوئی بھی مقدس گائے نہیں ہے، جو بھی سسٹم سے باہر نکل کر آمدنی پیدا کر رہا ہے اور ٹیکس نہیں دے رہا انہیں ہم نے ٹیکس کے دائرہ کار میں لانا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر امجد زبیر ٹوانہ نے اس موقع پر کہا کہ کسی نان فائلر کی سم نوٹس کے بغیر سم بلاک نہیں ہوئی ہے، نان فائلر کو پہلے نوٹس دیا جاتا ہے جس کے بعد اسے ایک ریمائنڈر بھی جاری ہوتا ہے اس کے بعد سم بند ہوتی ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دبئی لیکس کے حوالے سے وزیر خزانہ نے انہیں خود بریفنگ دینے کیلئے کہا ہے، ہم نے تیاری کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 3 ہزار 800 روپے کے ٹیکسوں میں سے 1751 ارب روپے پالیسی مداخلتوں سے حاصل ہوں گے جبکہ باقی خود مختار اور جی ڈی پی گروتھ سےپیداہوں گے، کورٹ کیسز سے بھی شارٹ فال پورا ہونے کی امید ہے۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ پی او ایس انعامی سکیم دوبارہ شروع کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پی او ایس ٹرانزیکشن پر ایک روپے کی فیس کی مد میں اب تک ایک ارب روپے حاصل ہو چکے ہیں۔ سیکرٹری خزانہ امداد اﷲ بوسال نے اس موقع پر کہا کہ تنخواہوں میں اضافہ بنیادی تنخواہ پر ہو گا، جن خود مختار اداروں اور کارپوریشنوں نے حکومتی پے سکیل کا اطلاق کر دیا ہے، اضافہ کا اطلاق ان پر ہو گا تاہم جن خود مختار اداروں کارپوریشنوں کے اپنے پے سکیل ہوں گے وہ اپنے طریقہ کار کے مطابق اس پر عمل کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ نے ای او بی آئی ایک خود مختار ادارہ ہے، پنشن میں اضافہ کا فیصلہ وہ خود کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ نان فائلر کیلئے کیپٹل گین ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں