سیالکوٹ رمضان بازار کے دورہ کے موقع پر فردوس عاشق اعوان نے اسسٹنت کمشنر کو شدید جھاڑ پلا دی

سیالکوٹ رمضان بازار کے دورہ کے موقع پر فردوس عاشق اعوان نے اسسٹنت کمشنر کو شدید جھاڑ پلا دی !

فردوس عاشق اعوان صاحبہ اپنے مخصوص انداز میں بولی ہیں پھر جب اے سی صاحبہ نے انکو سچوئشن کلئیر کرنے کی کوشش کی لیکن تب تک دیر ہوچُکی تھی۔

فردوس پوچھ رہی ہے تمہیں کس بے غیرت نے اے سی لگایا انھیں بتائیں پی ٹی آئی کی حکومت ہے خود ہی ڈھونڈ لیں اور فردوس عاشق کی زبان میں بولیں تو اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیر لیں پتہ چل جاے گا

اس تلخ کلامی پر سوشل میڈیا پر مختلف تبصرے ہورہے ہیں

ایک صارف کی رائے ہے ” ‏یا تو اے سی کو سلیوٹ کرلیں یا مہنگائی کا رونا رو لیں دونوں کام ساتھ نہیں ہو سکتے
بیوروکریسی کی جڑوں تک حرام خوری ہے ان کو صبح صبح حصہ پہنچ جاتا ہے اس کے بعد بازاروں میں تاجروں کی بدمعاشی چلتی ہے
لاکھوں تنخواہ لیکر کارکردگی پہ سوال ہو تومسکین بن کر رونا شروع ہو جاتےہیں”
ایک اور صارف کی رائے ہے ” یہ کوئی طریقہ نہیں عوام کے سامنے ایسے بات کرنے کا۔ میڈم یہ ڈرامے کرنے کے بجائے بزدار سرکار کو کہیں کہ مہنگائی کم کرنے کے اقدامات کرے۔ ڈانٹ ڈپٹ میٹنگز میں ہونی چاہیے۔ تماشہ کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ”
ایک اور صارف کی رائے ہے ” یہ حکومتی وزراء میں فرعونیت کوٹ کوٹ کر بھری ھوئی ھے۔ یہ ڈرم نما عورت بہت برے انداز سے دوسری خاتون کو بھرے بازار میں مردوں کے سامنے زلیل کر رہی ھے۔ جس طرح فاحشائیں خود تو ھوتی بدنام و بےعزت بےحیا۔ اسی طرح انہیں کسی دوسرے کی عزت کا خیال نہی ھوتا۔ اللہ تعالی رمضان المبارک کی مقدس گھڑیوں میں غریب عوام کی سن لے اور اس ناجائز و سلکٹڈ حکومت سے نجات عطا فرمائے۔”

ایک بیوروکریٹس سے نالاں صارف کا موقف ہے کہ ” سب جانتے ہیں کہ بیوروکریسی کی کارکردگی صرف سوشل میڈیا کی حد تک محدود ہے تو فردوس عاشق اعوان نے اسی سوشل میڈیا کے ذریعے انہیں بے نقاب کیا تو کیا غلط کیا؟ ”
ایک ممتاز صحافی طارق آفاق کا کہنا ہے کہ ” عدیل صحافت کے ایک ادنی طالب علم ہونے کے ناطے میری رائے ہے کہ حکومتی مشنری میں بیوروکریسی وہ گھوڑا ہوتا ہے جس کی باگیں آپ کے ہاتھ میں ہوتی ہیں….اب اگرگھڑسوار کے اندر اسے قابوکرنے کی صلاحیت نہیں….تو کیا گھوڑے کو سرعام ملامت کیا جائے…..”
۔
ایک صحافی کی رائے ہے کہ “سر بیوروکریسی تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں بعض سنگین نوعیت کے تحفظات کے باعث سست رفتاری کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، کابینہ ڈویژن میں کام کرنے والے کچھ افسر اس سست رفتاری کو وفاقی افسران کی ایک سوچی سمجھی پالیسی کا حصہ قرار دیتے ہیں”

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں