سابق جنرل کے بیٹے کا سافٹ وئیر 24 گھنٹوں اپڈیٹ ہوگیا کالعدم تنظیم کی حمائیت میں دیئے گئے بیان سے منکر

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل مرحوم کے صاحبزادے عبداللہ گل کا بھی تحریک لبیک اور سعد رضوی کی گرفتاری کے خلاف ملک بھر میں احتجاج شروع کرنے کے بیان کے بعد راولپنڈی پولیس کی جانب سے مقدمہ درج کرنے کے 24 گھنٹوں سافٹ وئیر اپ ڈیٹ ہوگیا ہے 

افغان جہاد میں اہم کردار ادا کرنے کی وجہ سے عالمی شہرت اختیار کرنے والے جنرل حمید گل کے صاحبزادے عبداللہ گل بھی مذہبی جماعتوں سے خصوصی تعلق رکھتے ہیں 

انہوں نے کالعدم تحریک لبیک  کے سربراہ حافظ سعد رضوی کی گرفتاری پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وڈیو بیان جاری کیا تھا جس میں انہوں نے سخت غم و غصے کا بھی اظہار کیا تھا 

اس بیان کے بعد ملک میں ہنگاموں کے بعد جب تحریک لبیک پر پابندی عائد کی گئی تو راولپنڈی  پولیس نے عبداللہ گل کے خلاف مقدمہ درج کرلیا  

مقدمہ درج ہونے کے 24 گھنٹوں کے اندر عبداللہ گل کا سافٹ وئیر اپ ڈیٹ ہوگیا اور انہوں نے اپنے بیان سے برات کا اعلان کردیا 

عبداللہ گل نے سافٹ وئیر اپ ڈیٹ ہونے کے بعد یہ بیاں جاری کیا 

” میرا بیان سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کیا گیا

یاد رہے میرا بیان سعد رضوی کی گرفتاری کے فوری بعد آیا، 

اس وقت تک نہ ہی ہنگامے برپا ہوئے تھے اور نہ ہی کالعدم قرار دیا گیا تھا

سیاست میں تشدد کی گنجائش نہیں بلکہ دلیل کے راستے کھلے ہیں۔

پرتشدد عوامل جن سے جانی اور مالی، سرکاری و نجی املاک کا نقصان ہوا انکی شدت سے مخالفت کرتا ہوں اور کسی بھی اندرونی و بیرونی ملک دشمن سازش کا ہمیں حصہ نہیں بننا چاہیے۔

میں نے ماضی میں بھی پرامن انداز میں دھرنا ختم کروانے میں مثبت کردار ادا کیا اور جب بھی پاکستان پر کوئی مشکل آئی اپنے عمل اور کوشش سے  ریاست کو سپورٹ کیا۔

ریاست میں ریاست بنانے کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی۔

حب الوطنی میرے خون میں بسی ہے۔

ایف آئی آر غلط فہمی کی بنیاد پر یک طرفہ درج ہوئی اور اسی انداز میں خارج ہونی چاہیے۔

*محمد عبداللہ حمید گل*

 ” *چئیرمین تحریک جوانان پاکستان*

اسی طرح سابق صدر جنرل ضیا الحق کے صاحبزادے اور سابق وفاقی وزیر اعجازالحق نے پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں،  1993ء میں اُن کی طرف سے راولپنڈی کے ایک جلسے میں کلاشنکوف لہرا لہرا کر دکھانے کے  بعد نصیر اللہ بابر مرحوم ایکشن میں آگئے۔ اعجازالحق تو کھلونا کلاشنکوف کہہ کراپنی جان بچاگئے مگر 

موجودہ وفاقی وزیر شیخ رشید احمد روز اول سے پیپلزپارٹی کی آنکھوں میں کھٹک رہے تھے موصوف 1988ء میں بے نظیر بھٹو کی کردار کشی والی ’’تصویری مہم ‘‘ میں بھی مبینہ طور ایک اہم کردار  سمجھے جانے تھے۔

1988ء میں چاہتے ہوئے بھی پیپلزپارٹی شیخ رشید احمد کے خلاف کارروائی نہ کرسکی۔

کہتے ہیں کہ 1993ء میں دوسری بار مرکز اور پہلی بار پنجاب میں حکومت بنانے کے بعد پیپلزپارٹی کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو 1993ء نے وزیر اعلیٰ پنجاب منظور وٹو کو شیخ رشید احمد کو سبق سکھانے کا ٹاسک دیا۔ بعض سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ شیخ رشید کو سبق سکھانے کا فیصلہ محترمہ بے نظیر بھٹوکا نہیں بلکہ ’’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار گورنر پنجاب چودھری الطاف حسین (وفاقی وزیرفواد چودھری کے چچا)‘‘ کا تھا۔

پیپلز پارٹی کے صبر کا پیمانہ اس وقت لبریز ہوا جب قومی اسمبلی میں وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے ’’پیلے لباس‘‘ کو دیکھتے ہو شیخ رشید احمد نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے حوالے سے انتہائی نازیبا جملہ استعمال کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی شکایت قائد حزب اختلاف اور شیخ رشید احمد کی پارٹی کے سربراہ نوازشریف سے بھی کی گئی اور پھر 1995ء کو ایک دن شیخ رشید احمد کے پبلک سیکٹریٹ لال حویلی پر چھاپہ پڑاور شیخ رشید احمد کے پلنگ کے نیچے رکھی غیر قانونی کلاشنکوف برآمد کر کے ان کو گرفتار کر کیا گیا۔

عدالت سے 7 سال قید اور جرمانے کی سزا ہوئی ۔ کہا جاتا ہے کہ شیخ رشید احمد کے خلاف سب کچھ جعلی تھا اور سزا کا حتمی فیصلہ بھی جج نے گورنر پنجاب کے حکم کے مطابق کیا۔ شیخ رشید احمد کئی ماہ تک جیل میں رہے اور پھر رہا ہوئے ۔

1997ء ، 2002ء، 2008ء اور 2018ء کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے اور آج وفاقی وزیر اور وزیراعظم عمران خان کے خاص معتمد ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں