پنخاب میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کی منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت

پنخاب میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کی منی لانڈرنگ میں ضمانت
‏لاہور ہائیکورٹ کا ایک ایک کروڑ کے دو ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم ‏جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اسجد جاوید گھرال پر مشتمل بنچ نےدرخواست ضمانت منظور کی نیب پراسیکیوٹر نے درخواست ضمانت کی مخالفت کی ان کا موقف تھا کہ
‏نصرت شہباز،رابعہ عمران،سلمان شہباز،عمران یوسف سمیت 6 ملزم اشتہاری ہیں، .
‏حمزہ شہباز نے بیرون ملک ترسیلات کے متعلق کوئی جواب نہیں دیا،
‏نیب نے اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت انکوائری کو آگے بڑھایا،
‏3 اپریل 2019کو حمزہ شہباز کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے،نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ
‏20 اگست 2020کو حمزہ شہباز اور 20 افراد کیخلاف ریفرنس دائر کیا گیا،

‏حمزہ شہباز 2008 میں ایم این اے اور 2018میں ایم پی اے بنے،
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سردار محمدسرفراز ڈوگر اور جسٹس اسجد جاوید گھرال پر مشتمل دو رکنی بینچ نے پاکستان مسلم لیگ (ن)کے نائب صدر اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر محمدحمزہ شہباز شریف کی منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں فوری طور پر جیل سے رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔  عدالت نے حمزہ شہباز کو 1 ، 1 کروڑ رو پے کے دو ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیاجبکہ عدالت نے کیس میں حمزہ شہباز کے شریک ملزمان فضل داد عباسی اور شعیب قمر کی ضمانت کی درخواستیں بھی منظور کرکے انہیں بھی ضمانت پر فوری طور پر رہاکرنے کا حکم دیا ہے ۔ حمزہ شہباز شریف کی جانب سے چوہدری اعظم نذیر تارڑ اور محمد امجد پرویز ایڈووکیٹ بطور وکیل پیش ہوئے اور دلائل دیئے جبکہ نیب کی جانب سے سپیشل پراسیکیوٹر سید فیصل رضا بخاری نے عدالت میں پیش ہو کرد لائل دیئے۔ حمزہ شہباز نے بعد از گرفتاری درخواست ضمانت دائر کی تھی جس میں چیئرمین نیب جسٹس (ر)جاوید اقبال اور دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔ دوران سماعت حمزہ شہباز کے وکلاء نے کہا کہ حمزہ شہباز کو گرفتار کرنے کے کئی ماہ بعد ریفرنس دائر کیا گیا اور  17ماہ بعد ان پر فرد جرم عائد کی گئی۔ حمزہ شہباز کے وکلاء نے کہاکہ ان کے مئوکل دو سال سے پابند سلاسل ہیں جبکہ نیب نے حمزہ شہباز کو ایک سال مزید زیر حراست رکھنے کا عندیہ دیا ہے جو سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلوں کے خلاف ہے۔ حمزہ شہباز کے وکلاء نے یہ نقطہ اٹھایا کہ نیب کی جانب سے حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثوں کے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں اور اس حوالہ سے نیب کے پاس کوئی ثبوت موجود  نہیں ہے۔ دوران سماعت نیب پراسیکیوٹر سید فیصل رضا بخاری نے عدالت کو بتایا کہ سال 2003میں حمزہ شہباز کے اثاثے چند لاکھ روپے تھے جبکہ سال2018تک حمزہ شہباز کے اثاثے537ملین روپے تک پہنچ گئے اور حمزہ شہباز نے کروڑوں روپے کی منی لانڈرنگ کی ہے اور قومی خزانے کو نقصان پہنچایا جبکہ مشکوک ٹرانزایکشنز کے حوالے سے بھی نیب پراسیکیوٹر نے ڈیٹا عدالت میں جمع کروایا۔ نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے حمزہ شہباز کی درخواست ضمانت مسترد کرنے کی استدعا کی  اور کہا کہ حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے حمزہ شہباز کے وکلاء اور نیب کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے حمزہ شہباز کی درخواست ضمانت منظور کر لی اور انہیں فوری طور پر جیل سے رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ نے حمزہ شہباز شریف کی درخواست ضمانت مسترد کردی تھی جس کے حمزہ شہباز شریف نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا تھا تاہم سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد حمزہ شہباز شریف کے وکلاء نے درخواست ضمانت واپس لے لی تھی اور دوبارہ لاہور ہائی کورٹ میں دائر کیا تھا۔ واضح رہے کہ رمضان شوگر ملز کیس میں لاہور ہائی کورٹ پہلے ہی حمزہ شہباز کی درخواست ضمانت منظور کر چکی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں