ووٹوں کو خفیہ رکھنے کا مطلب ہے کہ ہمیشہ خفیہ ہی رہیں گے، کاسٹ کیے گئے ووٹ کبھی کسی کو دکھائے نہیں جاسکتے : الیکشن کمیشن

*الیکشن کمیشن نے صاف صاف کہا کہ ‘ووٹوں کو خفیہ رکھنے کا مطلب ہے کہ ہمیشہ خفیہ ہی رہیں گے، کاسٹ کیے گئے ووٹ کبھی کسی کو دکھائے نہیں جاسکتے

*الیکشن کمیشن نے صاف صاف کہا کہ ‘ووٹوں کو خفیہ رکھنے کا مطلب ہے کہ ہمیشہ خفیہ ہی رہیں گے، کاسٹ کیے گئے ووٹ کبھی کسی کو دکھائے نہیں جاسکتے۔*
*ووٹ دکھا کر کاسٹ کرنا باکستان کے آئین کے منافی ہے لیکن پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ چاہتی ہے کہ کوئی راستہ نکال کر اوپن بیلٹ کیا جائے آخر عدلیہ کیوں ایسا چاہتی ہے*

*اس صدارتی ریفرنس میں وکلا کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل بھی فریق ہے جس پر اٹارنی جنرل کی طرف سے ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس کی طرف سے بھی یہ ریمارکس سامنے آئے ہیں کہ پاکستان بار کونسل کو صرف آئین اور قانون کی بالادستی کے بارے میں سنیں گے، سیاسی معاملات میں انھیں بولنے کی اجازت نہیں ہو گی*
*محترم چیف جسٹس صاحب وکلاء قانون کے اسٹوڈنٹ ہیں*
*قانون دان ہیں*
*جب آئیں اور قانون کے خلاف بات کی جائے تو وکلاء کیسے خاموش رہ سکتے ہیں اور اپ کس قانون کے تحت وکلاء کو اس آئینی و قانونی معاملے میں خاموش رہنے کا کہہ سکتے ہیں*

*صدر کی جانب سے سینیٹ کے انتحابات اوپن بیلٹنگ کے ذریعے کروانے کے حوالے سے سپریم کورٹ سے رائے مانگی گئی ہے اور اس معاملے میں عدالت اس پر رائے دینے کی پابند ہے تاہم آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس نہیں ہے*

*الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ میں سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹنگ کے ذریعے کروانے کے بارے میں صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران ایک بار پھر یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ آئین کے تحت پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے انتخابات خفیہ طریقے سے ہی ہو سکتے ہیں۔*

*چیف جسٹس نے کہا سینیٹ کے انتخابات میں چونکہ متناسب نمائندگی ہوتی ہے اس لیے پارلیمنٹ میں جتنی جماعتیں ہیں ان کو ان کی سیٹیوں کے حساب سے سینیٹ میں کامیابی ملنی چاہیے اور اگر ایسا نہ ہوا تو الیکشن کمیشن اس کا ذمہ دار ہوگا۔*

*الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں آزاد ارکان بھی ہیں اگر ان کا ووٹ بھی شامل کرلیا جائے تو پھر متناسب نمائندگی کا پیمانہ تبدیل ہو جائے گا۔*

*جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن اس بات کا جواب دے کہ نمائندگی کے تناسب کا مطلب اور اس کی ضرورت کیا ہے*
*قومی اسمبلی کی ووٹنگ میں آزادانہ ووٹ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، سینیٹ انتخابات کے لیے قانون میں آزادانہ ووٹنگ کی اصطلاح شعوری طور پر شامل نہیں*۔

*دوسری جانب اس صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران بینچ میں موجود جسٹس یحیٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ اگر متناسب نمائندگی کے پیمانے پر عملدرآمد کروایا گیا تو پھر الیکشن نہیں سلیکشن ہوگی اور جماعت کے سربراہ کو معلوم ہو گا کہ اس کو انتخابات میں کتنی سیٹیں ملنی ہیں۔*

*یحیی آفریدی صاحب آپ نے بالکل ٹھیک کہا جس طرح عمران خان کو سلیکٹ کیا گیا اس کے بعد چیئرمین سینیٹ کو سلیکٹ کیا گیا آپ عمران خان یہی چاہتے ہیں کہ پھر ایک بار سینٹ میں سلیکشن ہو*

*جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ووٹ فروخت کرنے سے متناسب نمائندگی کے اصول کی دھجیاں اڑیں گی، کوئی جماعت تناسب سے ہٹ کر سیٹیں جیت لے تو سسٹم تباہ ہو جائے گا۔*
*جسٹس صاحب کاش آپ کو 2018 کے الیکشن میں بھی جب عوام کے ووٹوں پر ڈاکہ مار کر بکسے چوری کرکے ایک سلکٹیڈ قسم کا وزیراعظم بنایا گیا جب سینٹ کی عددی اکثریت نہ ہونے کے باوجود بھی ایک سلیکٹڈ چیئرمین بنایا گیا تو آپ اس وقت بھی کہتےکے نظام تباہ ہو جائے گا*

*سماعت کے دوران چیف الیکشن کمشنر نے اوپن بیلٹ کے ذریعے انتخابات کی مخالفت کی*
*عدالت میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں الیکشن کمیشن نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ آئین میں خفیہ رائے شماری کا ہی ذکر ہے اس لیے الیکشن کمیشن آئین کی پاسداری کرتے ہوئے خفیہ بیلٹنگ ہی کروائے گا۔*

*الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ اگر عدالت عظمی آئین میں ترمیم کرنے کے حوالے سے کوئی ہدایت دیتی ہے اور پارلیمنٹ اس بارے میں کوئی قانون سازی کرتی ہے تو پھر اس معاملے کو دیکھا جاسکتا ہے۔*
*سماعت کے دوران عدالت کی طرف سے بارہا انتخابات میں شفافیت پر سوال اٹھائے جاتے رہے اور ساری ذمہ داری الیکشن کمیشن پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی رہی*
*حکومت چاہتی ہے کہ یہ کام سپریم کورٹ سے لیا جائے*
*سپریم کورٹ چاہتی ہے کہ یہ کام الیکشن کمیشن کرے*
*ایک غیر آئینی غیر قانونی کام کے لیے اس طرح کی تگ دو پہلے کبھی نہیں دیکھی*
*ایک سلیکٹڈ لاڈلے کے لئے ساری ریاست آئین قانون 22 کروڑ عوام کو تباہی کے دھانے پر پہنچایا جا رہا ہے*

*‏معزز ججز سے گزارش ہے کہ سینٹ کے الیکشن میں کرپشن کو ختم کرنے سے پہلے اپنی عدلیہ میں جو نیچے سے اوپر تک کرپشن ہے اسے ختم کریں جہاں آپ کا اختیار بھی ہے*

*‏2007 پرویز مشرف کی ایمرجنسی نافذ کرنے کے بعد pco کے تحت حلف اُٹھانے والے معزز جسٹس صاحبان*
*1ثاقب نثار 2 آصف کھوسہ 3 شیخ عظمت سعید 4 عمر عطا بندیال.*
*آئین اور قانون کے منافی جج ہمیشہ آئین اور قانون کے منافی ہی جاتے ہیں*
*ائین اور قانون کے منافی حلف لینے والے ججز نے ہمیشہ آئین و قانون کے منافی کام کیا اس پر ان کو سزا ضرور ہونی چاہیے*

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں