ایم این سی ایچ ملازمین کا احتجاجی دھرنا 41ویں روز میں داخل — ریاستی بے حسی کی انتہا، مائیں، بہنیں اور بچے تپتی دھوپ میں فاقہ کشی پر مجبور

ایم این سی ایچ ملازمین کا احتجاجی دھرنا 41ویں روز میں داخل — ریاستی بے حسی کی انتہا، مائیں، بہنیں اور بچے تپتی دھوپ میں فاقہ کشی پر مجبور

مظفرآباد: ریاستی بے حسی اور حکومتی تخت نشینوں کی خاموشی کے سائے تلے ایم این سی ایچ (MNCH) پروگرام سے وابستہ خواتین ملازمین کا احتجاجی دھرنا 41ویں روز میں داخل ہو چکا ہے۔ گرم موسم، تپتی دھوپ اور جھلسا دینے والی ہواؤں میں یہ مائیں، بہنیں اور بیٹیاں اپنے حقوق کے لیے سراپا احتجاج ہیں — ان کے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے بھی پیاس اور تھکن سے نڈھال، اپنے ماں باپ کے شانہ بشانہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔

احتجاج میں شریک خواتین کا کہنا ہے کہ مہینوں سے تنخواہیں بند ہیں، گھروں میں فاقوں کی نوبت آ چکی ہے، لیکن حکومتی ایوانوں میں بیٹھے بااختیار افراد کو خبر تک نہیں۔ یہ وہی خواتین ہیں جنہوں نے ماضی میں ماں اور بچے کی صحت کے لیے دن رات ایک کیا، دور دراز علاقوں میں خدمات انجام دیں، لیکن آج وہی نظام انہیں یکسر نظرانداز کر رہا ہے۔

ایک خاتون احتجاجی کارکن نے نم آنکھوں سے کہا:
“اگر ریاست ماں ہے تو پھر وہ اپنی ان بیٹیوں کے دکھ میں کہاں ہے؟ کیا ہماری قربانیاں رائیگاں جائیں گی؟ کیا ہمیں سڑکوں پر یوں ہی بیٹھا رہنا ہو گا جب تک کوئی سننے والا نہ ملے؟”

یہ دھرنا اب محض تنخواہوں کا مطالبہ نہیں بلکہ نظام کی بے حسی کے خلاف ایک نوحہ بن چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایوانوں کے در و دیوار ان مظلوم آوازوں کی صدائیں سننے سے قاصر ہیں؟ یا پھر یہ خاموشی کسی بڑے انسانی بحران کا پیش خیمہ ہے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں