نیویارک پوسٹ میں 21اگست 2021
کو شائع ہونے والی خبر ، ترجمہ آفاق فاروقی
پرائیویٹ ایکویٹی فرم دی ابراج گروپ جو کراچی الیکٹرک بھی چلاتی ہے ، کے سربراہ عارف نقوی کا شمار اپنی فیلڈ میں پائینیر کے طور پر ہوتا ہے ۔ سال2017میں عارف نقوی نے نیویارک میں تقریر کرتے ہوئے ایک نئے فنڈ کیلئے بلین ڈالرز جمع کرنے کی کوشش کی۔ مسٹر نقوی نے دنیا کے امیر ترین افراد جن میں بل گیٹس ، بل کلنٹن اور گولڈ مین سیکس میں اس وقت کے سی ای او لائیڈ بلینکفین جیسے کئی اور لوگوں کے ساتھ ہفتوں وقت گزارا اور انھیں دنیا کیلئے کچھ اچھا کرنے کی ترغیب دے کر اپنے پروجیکٹ میں سرمایا کاری کرکے پیسہ کمانے کیلئے راضی کیا۔ عارف نقوی اپنی کوششوں سے دنیا کی ان شخصیات کو متاثر کرنے میں کامیاب بھی ہو گئے لیکن ان کے اپنے ہی ایک ملازم نے ان کی لٹیا ڈبو دی۔
مسٹر عارف نقوی جو پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے بھی قریبی دوست تصور کئے جاتے ہیں کی زندگی کی یہ کہانی سائمن کلارک اور ول لوچ نے اپنی رواں سال شائع ہونے والی کتاب (دی کی مین: دی ٹرو سٹوری آف ہاﺅ دی گلوبل الیٹ واز ڈوپڈ بائی اے کیپیٹلسٹ فیری ٹیل ”The Key Man: The True Story of How The Global Elite was Duped by a Capitalist Fairy Tale“) میں بیان کی ہے۔
مصنفین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ نقوی نے مبینہ طور پر اپنے فنڈز میں تقریباً 780ملین ڈالرحاصل کیے تھے جن میں سے 385ملین ڈالرز کا کوئی حساب نہیں ہے۔ اس وقت انھیں 291سال قید کی سزا کا سامنا ہے۔ مسٹر نقوی کو اس خسارے کا سامنا اس وقت ہوا جب ان کے اپنے ایک نامعلوم ملازم کی طرف سے سرمایہ کاری کرنے والوں کو خبردار کرنے کیلئے ایک ای میل بھیجی گئی، جس نے سرمایہ کاروں کیلئے ایک بم کا کام کیا اور ابراج گروپ کا خاتمہ ہوگیا۔
لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک شخص نے ایسی کیا کہانی گھڑی کہ دنیا کے سمارٹ ترین سرمایہ کار اس کے دام میں پھنس گئے؟
عارف نقوی 1960میں کراچی میں پیدا ہوئے اور شہر کے بہترین گرامر سکول سے تعلیم کا آغاز کیا بعداز اعلیٰ تعلیم لندن سکول آف اکنامکس سے حاصل کی۔
اس کتاب کے مطابق 2003میں مسٹر نقوینے مڈل ایسٹ حکومت، شاہی خاندان اور تاجروں سے 118ملین ڈالر کے فنڈز اکٹھے کر کے ابراج گروپ کی بنیاد رکھی اور اعلان کیا کہ وہ عالمی سطح پر غربت پر قابو پانے کیلئے سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔اپریل 2010میں اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے نقوی کو دیگر250مسلم کاروباری رہنماﺅں کو انٹرپرینیورشپ صدارتی سمٹ میں شرکت کیلئے مدعو کیا جہاں نقوی نے آنے والی دہائیوں میں نوکریوں کی ضرورت میں اضافے کے حوالے سے تقریر کی۔ اس واقعے کے دو ماہ بعد یو ایس گورنمنٹ نے ابراج گروپ میں 150ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ نقوی نے یہ پیسہ جہاں چاہا وہاں لگایا۔
سال2008میں کراچی الیکٹرک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد نقوی نے کمپنی کو زیادہ منافع بخش تو بنا دیا لیکن 6000ملازمین کو نوکری سے نکال دیا جس کی وجہ سے ہنگامے ہوئے۔
رائٹرز کے مطابق اسی اثناءمیں نقوی نے مغرب سے رفاہی کاموں کی مد میں خوب فنڈز اکٹھے کیے۔ انھوں نے دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کو لاکھوں ڈالرز دیئے، جن میں امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی اور لندن سکول آف اکنامکس بھی شامل ہیں۔ لندن سکول آف اکنامکس نے ایک پروفیسر شپ کو بھی ابراج کے نام سے منسوب کیا۔ بل اینڈ ملینڈا گیٹس جیسے ارب پتی مخیر حضرات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عارف نے پاکستان میں صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کو بہتر بنانے کیلئے امن فاﺅنڈیشن کے نام سے 100ملین ڈالر کی فلاحی تنظیم شروع کی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ خود انتہائی پر آسائش زندگی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ دبئی میں عالیشان رہائش، پرائیویٹ گلف سٹریم جیٹ پر سفر ، نام والا فون نمبر اور نئے سرمایہ کاروں سے ملنے کیلئے یاٹ پرجانا ان آسائشوں میں شامل تھا۔ کتاب میں لکھا گیا ہے کہ مسٹر نقوی باقاعدگی سے ڈیووس اور ایسی دیگر کانفرنسوں میں شرکت کیا کرتے تھے اور وہیں ان کی ملاقات بل گیٹس سے ہوئی اور دونوں کی آپس میں دوستی ہوگئی، سال 2012میں بل گیٹس نے نقوی کے گھر ڈنرمیں بطور گیسٹ آف آنر شرکت کی۔ بل اور عارف نے پاکستان میں فیملی پلاننگ پروگرام پر مل کر کام کرنے پراتفاق کیا۔ بل کیلئے عارف موزوں انسان تھا کیونکہ وہ پیسے والا ہونے کے باوجود غریبوں کیلئے درد دل رکھتا تھا۔ گیٹس فاﺅنڈیشن کی طرف سے مسٹر نقوی کو اس پراجیکٹ میں سرمایہ کاری کیلئے سو ملین ڈالر دیے گئے۔ اس انویسٹمنٹ کے بعد ابراج گروپ کو دیگر سرمایہ کاروں کی طرف سے 900ملین ڈالر سے زائد رقوم کے حصول میں مدد ملی۔
مصنفین نے کتاب میں لکھا ہے کہ نقوی سرمایہ کاروں کو دھوکے میں رکھتے تھے اور انھیں سب اچھا ہے کی رپورٹ دیتے تھے۔ سال 2015میں نقوی نے اپنے لئے53.75ملین ڈالر رکھ کر 154ملین ڈالر بطور شیئر سیل بھی لے لئے اور اپنے سرمایہ کاروں کو ان کے منافع سے محروم کردیا تھا۔
لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد گیٹس فاﺅنڈیشن کے ایک فنڈ مینجر اینڈریو فارنم کو ابراج گروپ پر شک ہونے لگا، کیونکہ ابراج گروپ کی طرف سے پچھلی سو ملین ڈالر کی سرمایہ کاری پر کوئی کارکردگی نہیں دکھائی جارہی تھی بلکہ مزید سرمایہ کاری کا مطالبہ کیا جارہا تھا ۔ جب فارنم نے ابراج گروپ سے اس بارے میں باز پرس کی تو ان کی طرف سے مبہم جواب دیا گیا۔ اس کے بعد فارنم کو ابراج گروپ کے نامعلوم ملازم کی طرف سے ایک ای میل موصو ہوئی جس میں تنظیم کے غیرواضح معاملات واضح تھے۔ ایسی ہی ای میلز ابراج گروپ کے دیگر سرمایہ کاروں کو بھی ارسال کی گئی تھیں ۔ اس ای امیل کے سلسلے کے بعدسرمایہ کاروں کا براج گروپ سے اعتماد اٹھ گیا اور انھوں نے ابراج گروپ سے اپنے پیسے واپس مانگنے شروع کر دیے، پر مشکل یہ تھی کہ ابراج گروپ کے پاس واپس کرنے کیلئے اتنا پیسہ نہیں تھا۔
گیٹس فاﺅنڈیشن نے ابراج کی اکاﺅنٹ بکس کی تحقیقات کیلئے ایک فرانزک اکاﺅنٹنگ ٹیم کی خدمات حاصل کیں۔ اس سارے معاملے کے دوران مسٹر نقوی مسلسل مکنہ سرمایہ کاروں سے ملاقاتیں کرکے چھ بلین ڈالر تک کے فنڈ ز اکٹھے کرنے کی کوششوں میں لگے رہے۔ اسی دوران ڈیووس میں بل گیٹس کے ساتھ گلوبل ہیلتھ کیئر کے ایک مباحثے میں شریک ہوئے۔ لیکن بل نے نقوی کو وہاں دیکھ کر ناگواری کا اظہار کیا ۔ اس دوران نقوی جب بھی بل گیٹس سے آنکھیں ملانے کی کوشش کرتے تو وہ اپنا منہ دوسری جانب پھیر لیتے۔
واضح رہے اس کتاب کے مصنفین سال2018میں ابراج گروپ کے مبینہ گھپلوں کو بے نقاب کرنے کیلئے دی وال سٹریٹ جرنل میںایک مضمون بھی لکھ چکے ہیں۔ مصنفین کی رپورٹ کے مطابق ابراج گروپ نے اپنے سرمایہ کاروں کا600ملین ڈالر چپکے سے اپنے خفیہ بنک اکاﺅنٹس میں منتقل کیا تھا ، پھر اس رقم میں سے 200ملین ڈالر عارف اور اس کے قریبی ساتھیوں کو پہنچے تھے۔
لیکن آخر کار یو ایس پراسیکیوٹرز نے نقوی پر ایک کریمینل آرگنائزیشن چلانے کا الزام لگایا، اور اپریل2019میں اسے لندن کے ہیتھرو ہوائی اڈے سے گرفتار کر کے اس کی امریکہ کو حوالگی کا حکم دیا گیا تاکہ وہ نیویارک میں اپنے خلاف دھوکہ دہی کے مقدمے میں پیش ہو سکے۔ واضح رہے نقوی نے اپنے اوپر لگے الزامات سے انکار کیا تھا اب وہ لندن میں اپیل کے فیصلے کے انتظار میں نظر بند ہیں۔ ان کی کمپنی کے نام کو لندن سکول آف اکنامکس کی پروفیسر شپ سے ہٹا دیا گیا ہے۔
