اٹک وائس چیئرمین بلدیہ اٹک ملک طاہر اعوان نے خاتون ایس پی انویسٹی گیشن ڈاکٹر عمارہ شیرازی ، اے ایس پی ( ایس ڈی پی او صدر سرکل ) جواد اسحاق اور تفتیشی سب انسپکٹر عظمت حیات جو اب ایس ایچ او تھانہ صدر اٹک کے عہدے پر تعینات ہیں پر کرپشن اختیارات کے ناجائز استعمال ، بدعنوانی، سرکاری پیٹرول شیل پیٹرول پمپ اٹک سے اپنے ائیر فورس کے ملازم خاوند اور دیگر نجی گاڑیوں میں ڈلوانے ، اپنی سرکاری نمبر پلیٹ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے کاروبار میں استعمال کرکے اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے ، معمولی تخواہ میں اٹک کے سب سے مہنگے رہائشی علاقے میں عالیشان کوٹھی میں رہائش ، بچوں کو مہنگے تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوانے ، ایک لاکھ روپے رشوت وصول کرنے اور دیگر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان الزامات کی اعلیٰ سطحی انکوائری کرائی جائے ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ان کے ہمراہ ان کے بیٹے ملک اذان اعوان اور پیپلز کالونی کے رہائشی ریحان محمود بھی موجود تھے جنہوں نے بھی اے ایس پی جواد اسحاق پر اپنی جواں سالہ سالی کے ساتھ ملی بھگت کر کے ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کرایا تھا جو عدالت نے پہلی ہی سماعت میں خارج کر دیا ملک طاہر اعوان نے کہا کہ انہوں نے تین مرتبہ ضلع اٹک میں تعینات ہونے والی خاتون ایس پی انوسٹی گیشن ڈاکٹر عمارہ شیرازی (پی ایس پی) کے پی کے سے تعلق رکھنے والے اے ایس پی ایس ڈی پی او صدر سرکل جواد اسحاق اور سب انسپکٹر عظمت حیات کی کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر وزیر اعلیٰ پنجاب ، آئی جی پنجاب اور ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب کو الگ الگ تحریری درخواستوں میں تمام حقائق سے آگاہ کر دیا ہے اور ان افسران کے خلاف عدالت عالیہ راولپنڈی بینج میں بھی رٹ پٹیشن دائر کر دی ہے انہوں نے ان درخواستوں میں تحریر کیا کہ ان تینوں پولیس افسران نے ان کے سیاسی مخالفین کے ساتھ ملی بھگت ، ساز باز اور مالی منفیت حاصل کر کے مقدمہ نمبر 155;47;21 مورخہ 10-05-2021 تھانہ اٹک سٹی میں ان کے بیٹے ملک اسامہ بن طاہر اعوان کے خلاف ایک ماہ آٹھ دن بعد اسے نامزد کیا گیا جس کے خلاف آج تک کوئی شہادت صفحہ مثل پر نہیں آئی ہے تاہم اس کے باوجود یہ دونوں افسران مدعی مقدمہ وغیرہ کے گھر جا کر میرے سیاسی مخالفین کے ایماء پر ان کی ہر قسم کی غیر قانونی مدد کرتے ہوئے میرے بیٹے کے خلاف شہادت تیار کرتے ہیں اور اب ممکنہ طور پر میرے بیٹے کو جھوٹے اور بے بنیاد مقدمہ میں سزا یاب کرانے کے در پہ ہیں اور اس کیلئے انہوں نے دن رات ایک کر کے مجھے اور میرے بیٹے کو بلیک میل کیا ہوا ہے خاتون ایس پی ڈاکٹر عمارہ شیرازی اس سے قبل 3 مرتبہ اٹک میں اے ایس پی رہ چکی ہیں جو بہت زیادہ واقفیت ہونے اور کرپٹ عناصر سے تعلقات ہونے کی وجہ سے کرپشن لینے ماہر ہو چکی ہیں جن کو میرے سیاسی مخالفین و حکومتی ارکان کی مکمل پشت پنائی حاصل ہے جس کی وجہ سے وہ بار بار ضلع اٹک میں اپنی تعیناتی کرا لیتی ہیں جس کی مثال یہ ہے کہ تفتیشی سب انسپکٹر عظمت حیات نے انہیں بلیک میل کر کے ان سے اسلم کالونی میں روبروگواہان ایک لاکھ روپے رشوت لی کہ میں آپ کے بیٹے کی مدد کروں گا اگر آپ نے مجھے ایک لاکھ روپے رشوت نہ دی تو میں مقدمہ آپ کے بیٹے کے خلاف کر دوں گا بعد میں کہا کہ ایس پی ڈاکٹر عمارہ شیرازی کہتی ہیں کہ پارٹی بہت امیر ہے ان سے 10 لاکھ روپے لو ورنہ ان کا ایسا بندوبست کرو تاکہ یہ یاد رکھیں جس پر میں نے انکار کیا کہ میرا بیٹا بے گناہ ہے میں رشوت نہیں دیتا مجھے میرٹ چاہیے تو سب انسپکٹر عظمت حیات نے کہا کہ ایس پی میڈم عمارہ شیرازی آپ کا نام تک نہیں سننا چاہتی اور مجھے حکم دیا ہے کہ طاہر اعوان کا کوئی بھی جائز کام نہیں کرنا اور ہر طرح سے اس کے خلاف کاروائی کرنی ہے عظمت حیات نے یہ بھی کہا کہ آپ نے جو درخواست ڈی پی او اٹک رانا شعیب محمود کو دی تھی اس پر ایس پی انوسٹی گیشن نے آج کوئی کاروائی نہیں کی آپ کو اس بات سے اندازہ لگا لینا چاہیے کہ خاتون ایس پی صاحبہ آپ کے کتنا خلاف ہیں خاتون ایس پی انویسٹی گیشن ڈاکٹر عمارہ شیرازی اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنی سرکاری گاڑی پر اپنے سسر قمر شاہ کو کامرہ اٹک سے میانوالی لینے و چھوڑنے کیلئے 3;47;4 ملازمین استعمال کرتی ہیں اس میں پیٹرول کے تمام اخراجات سرکاری ہوتے ہیں جس کا ثبوت ملازمین کے موبائل ڈیٹا ، ٹول پلازہ اور تصاویر سے واضح ہو جاتا ہے علاوہ ازیں خاتون ایس پی انویسٹی گیشن ڈاکٹر عمارہ شیرازی اپنی ذاتی رہائش حافظ آباد میں سرکاری خرچ پر پولیس ملازمین کے ہمراہ آتی جاتی ہیں کیا اٹک کے عوام کیلئے مختص کیا گیا تیل خاتون ایس پی انویسٹی گیشن کے استعمال میں خرچ ہوتا ہے یہ تبدیلی ہے خاتون ایس پی کا معمول ہے کہ روزانہ 12 بجے دفتر آنا اور 3 بجے واپس کامرہ رہائش گاہ پر چلے جانا اور کبھی دفتر نہ آنا اٹک کے عوام کو صبح سے دفتر بلا کر ذلیل کرنا ، ایس پی کے دفتری اوقات 3 گھنٹے سے زائد نہ ہیں ان کا اپنا قانون ہے کہ جب مرضی آئیں اور جب مرضی واپس چلی جائیں کیا حکومت انہیں 3 گھنٹے کی لاکھوں روپے تنخواہ اور ہر طرح کی مراعات دیتی ہے ، اے ایس پی ( ایس ڈی پی او صدر سرکل اٹک ) جواد اسحاق جب سے اٹک آئے ہیں انہوں نے صدر سرکل میں قانون کی حکمرانی کی بجائے ایس ڈی پی او صدر سرکل آفس کو نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی طلب اور رسد کا مرکز بنا دیا ہے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے شو روم مالکان سے اے ایس پی کا رابطہ رہنا واضح ثبوت ہے اس کے علاوہ اے ایس پی جو سرکاری گاڑی اپنے استعمال میں رکھتے ہیں اس کا نمبر ;657571;26 سبز نمبر پلیٹ پر لکھا ہوتا ہے گاڑی کبھی ویگو ، کبھی کار ، کبھی صرف گاڑی وغیرہ وغیرہ پر نیلی بتی لگا کر اٹک کے اندر اور بیرون ضلع بھی استعمال کرتے ہیں جو کہ ان تمام گاڑیوں کی نمبر پلیٹ پر یہی نمبر درج ہوتا ہے قانون سب کیلئے برابر ہے تاہم ان افسران کیلئے کوئی الگ قانون ہو گا قانون اندھا ہوتا ہے لیکن نظر ایسے آ رہا ہے کہ قانون اندھا نہیں بلکہ گونگا بہرا اور کانا ہے تفتیش افسر نے ان کی گاڑی کو فرانزک کیلئے جمع کرایا عملے نے آ کر چیک کیا اور حادثہ میں استعمال ہونے والے موٹر سائیکل کا بھی معائنہ کیا اور کہا کہ یہ گاڑی حادثہ میں استعمال نہ ہوئی ہے ان تمام معاملات کو جس میں گاڑی کلیئر ہو گئی کو تفتیشی ایس پی انویسٹی گیشن کی بے جاہ مداخلت کی وجہ سے ان حقائق کو صفحہ مثل پر نہیں لا رہا ہے 18 اگست 2021 کو اے ایس پی ، ایس ایچ او ، سب انسپکٹر عظمت حیات ، سب انسپکٹر غلام حسن و دیگر عملہ تقریباً آدھے گھنٹے تک خود غیر قانونی طریقے سے گاڑی کو کھول کر بونٹ ، فرنٹ ، حصہ چیک کرنے کی بجائے مذکورہ گاڑی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے تھے کہ اچانک میں اور میرا بیٹا تھانے داخل ہوئے ، سارا واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی جا سکتی ہے 17 اگست کو ان کے بیٹے کی گاڑی کا مکمل طور پر معائنہ ماہر فرانزک لیبارٹری والوں نے کیا اس کے بعد ان کی گاڑی کے ساتھ اے ایس پی اور دیگر پولیس افسران کی چھیڑ چھاڑ غیر قانونی اور انہیں نقصان پہنچانے کے مترادف ہے یہ پولیس افسران اس بات کے متعلق بھی آگاہ کریں کہ انہوں نے اس سے قبل کبھی تھانہ میں ماہرین کے بغیر گاڑیوں کا معائنہ کیا ہے اس یہ ثابت ہوتا ہے کہ سب انسپکٹر عظمت حیات کو 10 لاکھ روپے رشوت نہ دے کر میں اور میرا بیٹا سزا بھگت رہے ہیں ایس پی اور اے ایس پی کے گٹھ جوڑ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سب انسپکٹر عظمت حیات تبدیل بھی ہو گیا تاہم تفتیش میں وہ ہر جگہ تھانہ سے لے کر ڈی پی او آفس اور ہائی کورٹ تک وہ خود پیش ہو رہا ہے اس کرپٹ اور بددیانت کے علاوہ کوئی اتنا قابل نہیں ہے جو مقدمہ میں بطور تفتیشی افسر پیش ہو ایس پی اور اے ایس پی نے موجودہ تفتیشی کو بھی یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غیر قانونی طریقہ اختیار کر کے مقدمہ کی تفتیش ہمارے خلاف کرنا چاہتے ہیں سب انسپکٹر عظمت حیات جس نے ان سے ایک لاکھ روپے رشوت لی اور وہ اب رقم واپس کرنے میں ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے اور اکثر اوقات وٹس ایپ پر کال کر کے تسلی دے دیتا ہے ان کے افسران کو بھی اس کے بارے میں آگاہ کیا گیا تو اس نے مجھے واضح دھمکی دی کہ آپ جہاں مرضی شکایت کر لیں آخر تفتیش محکمہ پولیس نے ہی کرنی ہے مجھے تھانہ اٹک سٹی اور تھانہ صدر اٹک کے قتل کے مقدمات کا انچارج افسران نے بنایا ہے اور خاص طور پر آپ کے مقدمہ کی دیکھ بھال میرے سپرد کی ہوئی ہے عظمت حیات بطور انچارج ایچ آئی یو کی حیثیت سے قتل کی غلط تفتیش کرنے کے سبب کروڑ پتی بن چکا ہے جس نے اٹک کے سب سے مہنگے اور پوش علاقہ میں 10 مرلہ میں اپنی کوٹھی بنائی ہوئی ہے اور اس کے علاوہ مختلف پلاٹس اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے نام خرید رکھے ہیں ذاتی کار اور بچوں کی تعلیم مہنگے تعلیمی اداروں میں کرا رہا ہے یہ قتل کے مقدمات میں خود پہلے مدعی پارٹی سے مل کر ایف آئی آر میں بے گناہ لوگوں کو نامزد کرواتا ہے اور بعد میں بھاری رشوت لے کر ان کو مختلف طریقے بتا کر افسران کو اندھیرے میں رکھ کر یا رشوت لے کر بے گناہ کرواتا ہے یہ تمام افسران میرے مخالف کو خوش کرنے کیلئے مجھے اور میرے بیٹوں کے دشمن بن چکے ہیں اور یہ کسی بھی وقت ہ میں نقصان پہنچا سکتے ہیں ان کے الزامات پر کسی سینئر غیر جانبدار آفیسر سے انکوائری کرائی جائے اور حتمی انکوائری رپورٹ تک ان افسران کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے بہت سے حقائق وہ ابھی میڈیا کے سامنے بیان نہیں کرنا چاہتے وہ تمام حقائق وہ اعلیٰ سطحی انکوائری ٹیم کے سامنے پیش کریں گے ڈی پی او اٹک رانا شعیب محمود سے انہوں نے 20 اگست کو سینئر قانون دان سید عظمت علی بخاری ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اور ثاقب شاہ زیب اعوان ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کے ہمراہ ملاقات کی اور انہوں نے ڈی پی او کو تمام صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے انہیں کاغذات دیئے جو انہوں نے بھی اپنے ماتحت عملہ کی روش پر عمل پیرا ہو کر صفحہ مثل پر نہیں لگائے جس میرٹ کا قتل عام کیا جا رہا ہے ان کی پریس کانفرنس سے قبل ڈی پی او آفس کے ترجمان کی جانب سے ان کی کردار کشی ، پولیس کے ان کے خلاف عزائم کو بے نقاب کرتی ہے جس میں پولیس نے ان کے خلاف جن مقدمات کی لسٹ جاری کی ہے یہ تمام مقدمات عدالتوں نے خارج کر کے انہیں باعزت بری کیا ہے جس پر پولیس نے اپیل دائر نہیں کی اور ان کے خلاف ڈی پی او آفس کے میڈیا سیل سے جو شرانگیز پریس ریلیز جاری کیا گیا ہے اس پر وہ ان افسران کے خلاف دس دس کروڑ روپے کے حرجانہ کا دعویٰ کریں گے پاکستان خاص طور پر اٹک میں قیام پاکستان سے لے کر آج تک افسران اپنی من مانی ، مالی و اخلاقی کرپشن ، اختیارات کے ناجائز استعمال ، سرکاری وسائل کی لوٹ کھسوٹ ، سیاسی شخصیات کا ایک غیر قانونی کام کر کے اپنے 100 کام کر لیتے ہیں اور سیاسی شخصیات کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ معاشرہ بہتر ڈگر پر گامزن ہے تاہم عام آدمی مڈل مین جس کرب اور مصیبتوں ، پریشانیوں ، مالی بدحالی اور دیگر وسائل نہ ہونے کے سبب جن مسائل کا شکار ہے ان کی طرف موجودہ منتخب اور غیر منتخب قیادت کی توجہ نہیں وہ ان افسران کے خلاف ہمیشہ آواز حق بلند کرتے رہے ہیں بطور وائس چیئرمین بلدیہ اٹک جس طرح انہوں نے عوام کی خدمت کی ہے اور اس کے قبل ناظم یونین کونسل اور کونسلر بلدیہ کی حیثیت سے بھی عوامی خدمت کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری و ساری ہے اور وہ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا بہترین جہاد ہے اس حدیث مبارکہ پر عمل پیرا ہیں اس کی پاداش میں اٹک کی سیاسی قیادت اور افسران کے گٹھ جوڑ نے ان کے بیٹے کو بے گناہ مقدمہ قتل میں ملوث کر دیا ہے افسران ان کے مخالفین کی دہلیز پر جا کر سجدہ ریز ہو کر ان کے ہر غلط اقدام پر ان کی حمایت اور ہماری جانب سے اپنی بے گناہی کیلئے ثبوتوں کو صفحہ مثل پر لانے کیلئے تیار نہیں جو پاکستان میں نا انصافی اور افسر شاہی کی ہٹ دھرمی اور جو ان کی زبان سے نکل آئے اس کا منہ بولتا ثبوت ہے اٹک میں اس وقت یہ صورتحال ہے کہ پولیس جو قانون کی محافظ ہے جو قانون پر عملدرآمد کی بجائے خود قانون شکنی ، غیر قانونی کاروبار ، سرکاری وسائل کے ناجائز استعمال ، بدعنوانی ، تنخواہ سے زیادہ اخراجات اور دیگر غیر قانونی کاموں میں شریک ہے ہر مقدمے کا ریٹ مقرر ہے انصاف کی فراہمی صرف اشرافیہ تک محدود ہے عام آدمی کیلئے انصاف کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں لوگ دوردراز سے روزانہ آ کر ناکام اور نامراد لوٹتے ہیں اور اسی طرح لوگوں کو ناجائز مقدمات میں ملوث اور بعدازاں معاملات طے ہونے پر بے گناہ یا عدالتوں سے ایسے بیانات جس میں ان لوگوں کا فائدہ ہوتا ہے دے کر مک مکا کا سلسلہ جاری ہے ۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر اٹک رانا شعیب محمود نے کہا ہے کہ وائس چیئرمین بلدیہ ملک طاہر اعوان کی پریس کانفرنس کا جواب دینا میرے منصب کی توہین ہے اور یہ اپنے بیٹے کے قتل میں ملوث ہونے پر پردہ پوشی کی ناکام کوشش ہے اے ایس پی جواد اسحاق پر نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے کاروبار ، ایس پی انویسٹی گیشن ڈاکٹر عمارہ شیرازی اور تفتیشی پر بدعنوانی اور دیگر الزامات حقائق کے منافی ہیں اٹک پولیس میرٹ پر تفتیش کا عمل جاری رکھے گی کسی بھی شخص کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ پولیس افسران کی عزت اچھالے اور نہ ہی ان الزامات کی کوئی تحقیقات کرائی جائیں گی ان خیالات کا اظہار انہوں نے چیئرمین اٹک پریس کلب رجسٹرڈ ندیم رضا خان کی قیادت میں ملنے والے صحافیوں کے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کیا وفد میں صدر پریس کلب حسن ابدال شہزاد سید ، سینئر صحافی حضرو نثار علی خان ، مرکزی سینئر نائب صدر فیڈرل یونین آف جرنلسٹس پاکستان صوفی فیصل بٹ اور سینئر صحافی حاجی غلام شبیر شامل تھے جبکہ اس موقع پر اے ایس پی جواد اسحاق ، ڈی ایس پی حسن ابدال راجہ فیاض الحق نعیم ، پی ایس او ٹو ڈی پی او تیمور علی خان اور دیگر پولیس افسران بھی موجود تھے ڈی پی او نے کہا کہ پولیس میرٹ کو کبھی نظر انداز نہیں کرے گی طاہر اعوان کیس کی میرٹ پرتفتیش پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم پولیس میرٹ پر فیصلہ کرے گی اور ایسی سینکڑوں پریس کانفرنسز ہوتی رہیں پولیس میرٹ کے مطابق تفتیش کرے گی ۔
اٹک ( چیف کرائم رپورٹر پنجاب ڈاکٹر مہتاب منیر خان سے ) سابق انچارج ایچ آئی یو صدر سرکل اٹک سب انسپکٹر عظمت حیات نے کہا ہے کہ وائس چیئرمین بلدیہ اٹک ملک طاہر اعوان کی جانب سے پریس کانفرنس کے حوالہ سے وہ کوئی جواب نہیں دینا چاہتے کیونکہ اب تفتیش ان کے پاس نہیں ہے ان کے بیٹے کے قتل میں ملوث ہونے کی تفتیش اب سب انسپکٹر غلام حسن کے پاس ہے وہی اس کا جواب دے سکتے ہیں ۔
انچارج ایچ آئی یو صدر سرکل اٹک سب انسپکٹر غلام حسن نے کہا کہ ان کے پاس وائس چیئرمین بلدیہ اٹک ملک طاہر اعوان کے بیٹے کے قتل میں ملوث میں ہونے کی تفتیش آئی ہے انہوں نے کہا کہ ملک طاہر اعوان کے بیٹے کی گاڑی کے فرانزک کے سلسلہ میں ماہرین نے گاڑی کا معائنہ کر لیا تاہم نہ تو انہوں نے کوئی تحریر لکھ کر دی اور نہ ہی ہم نے ان سے کوئی تحریر لکھوائی ہے اور نہ ہی ادارے کی جانب سے کسی قسم کا کوئی لیٹر پولیس کو موصول ہوا ہے یہ بات انہوں نے ڈی پی او آفس میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہی ان سے جب مقدمہ قتل کی مثل کی فوٹو اسٹیٹ مانگی گئی تو انہوں نے کہا کہ پولیس مثل کی کاپی کسی بھی طرح مقتول اور قاتل پارٹی کو بھی فراہم نہیں کی جاتی انہیں بتایا گیا کہ صفحہ مثل کی فوٹو کاپیاں لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینج میں مدعی نے اپنی درخواست کے ساتھ منسلک کی ہیں جس کی فوٹو کاپیاں ملک طاہر اعوان نے اپنی پریس کانفرنس میں میڈیا کے سامنے پیش کیں ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ کاپیاں انہوں نے نہیں دیں اور نہ ہی ان کے علم میں ہے کہ مدعی کو پولیس ریکارڈ کس نے فراہم کیا انہوں نے کہا کہ مقدمہ کی تفتیش میرٹ پر ہو رہی ہے اور کسی قسم کا کوئی دباءو افسران کی جانب سے نہیں ہے ۔
ڈی پی او آفس کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق اٹک پولیس کے افسران کے خلاف مذموم پروپیگینڈا کرنے والا طاہر اعوان جو متعدد مقدمات میں چالان ہونے ہیں اپنے بیٹے کو قتل کے مقدمہ سے بچانے کے لیے اوچھی حرکات کر رہے ہیں وہ اپنے بیٹے اسامہ کو قتل کے مقدمہ سے بچانے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں بلیک میلنگ کے ذریعے افسران کو پریشرائز کرنے کی کوشش کرنابھی ان کا معمول ہے ان کے خلاف ماضی میں مقدمات بھی درج ہوئے جن تینوں افسران پر الزامات عائد کیے گئے ہیں وہ تینوں ان کے بیٹے کے مقدمہ کی نگرانی کر رہے ہیں یہ واقعہ 10مئی رات تقریبا سوا آٹھ سے سوا نو بجے کے درمیان دارالسلام کالونی میں پیش آیا جس میں تین موٹر سائیکل سوار نوجوانوں کو کچلنے کی کوشش کی گئی جس میں ایک نوجوان طلحہ شاہد ہلاک اور دوسرا عبداللہ سلیم شدید زخمی ہو گیا تھا ۔ جو تقریبا ایک ماہ تک کومہ کی حالت میں زندگی اور موت کی کشمکش میں رہاموت کے منہ سے واپس آنے والے نوجوان عبداللہ سلیم کے بیان پر پولیس نے مختلف دفعات کے تحت جن میں قتل کی بھی دفعہ شامل ہے ملزم اسامہ اعوان کو نامزد کیا اٹک پولیس کسی بھی بلیک میلنگ یا پریشر کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے میرٹ کی پاسداری کو یقینی بنائے گی ۔