افغان صدر اشرف غنی نے افغانستان کو چھوڑدیا طالبان کی حکومت میں آخری رکاوٹ ختم ہوگئی جبکہ افغان رہبمائوں کا 10 رکنی وفد پاکستان پہنچ گیا ہے افغانستان کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی قیادت میں مزاکراتی وفد قطر روانہ ہوگیا وزیراعظم عمران خان نے قومی سلامتی کونسل کا اجلاس کل طلب کرلیا ہے
ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چودھری نے کہا ہے کہ افغانستان میں صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے، کابل کی صورتحال کو مسلسل دیکھ رہے ہیں۔ ابھی کابل میں پاکستانی سفارتخانہ بند کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ پاکستانی سفارتخانہ کابل میں فعال ہے ۔ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا کہ افغانستان کی بگڑتی صورتحال پر تشویش ہے، سفارتخانے کو بند کرنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے،افغان مسئلے کے حل کیلئے سفارتی کوششیں جاری رہنا چاہئیں۔زاہد حفیظ چودھری نے کہاکہ افغانستان کی صورتحال دنیا کی فوری توجہ کی متقاضی ہے،پاکستان نے ہمیشہ کہا کہ افغان مسئلے کا فوجی حل نہیں ہے، بلکہ اس کا پرامن حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ افغانستان کی سیکیورٹی صورتحال پر انتہائی تشویش ہے،ہم نہیں چاہتے افغانستان میں انسانی بحران جنم لے۔
قائم مقام افغان وزیر داخلہ عبدالستار میر زکوال نے کہا ہے کہ طالبان سے کابل پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ طے پا گیا ہے ، افغانستان میں اقتدار پرامن طور پرعبوری حکومت کو منتقل ہو گا۔ میڈیا کو جاری کئے گئے بیان میں انہوں نے بتایا ہے کہ معاہدے کے تحت عبوری حکومت کو اقتدار کی منتقلی پرامن ماحول میں ہو گی۔افغان حکام نے کہا ہے کہ افغان حکومت خونریزی کی خواہاں نہیں ہے، کوشش ہے کہ جنگ کے بغیر ہی معاملہ حل کر لیا جائے۔اس سے قبل افغان میڈیا پر جاری بیان میں طالبان نے کہا ہے کہ کابل میں بزورِ طاقت داخل نہیں ہوں گے، دوسری طرف سے مذاکرات جاری ہیں تاکہ کابل میں داخلے کے وقت شہریوں کو نقصان نہ پہنچے۔طالبان نے کسی قسم کا انتقام نہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم انتقام نہیں لے رہے، تمام فوجی اور سویلین اہلکار محفوظ رہیں گے۔عرب ٹی وی سے گفتگو میں طالبان ترجمان نے کہا کہ بزورِ طاقت کابل میں داخل نہیں ہوں گے، اقتدار کی پرامن منتقلی کے لیے بات چیت کریں گے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ چاہتے ہیں کہ افغان دارالحکومت کا کنٹرول پرامن طریقے سے ملے، اس کے لیے چند روز یا ہفتہ بھی لگا تو انتظار کریں گے
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں طالبان کے داخلے کی رپورٹ کے بعد کابل انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پروازوں کی آمدورفت معطل ہوگئی ہے، پی آئی اے کے دو طیارے کئی گھنٹوں سے کابل ایئرپورٹ پر کھڑے ہیں۔ایئر لائن ذرائع کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کے دونوں طیاروں کو پرواز کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ذرائع ایئرلائن کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کے دونوں طیاروں میں 499 مسافر موجود ہیں۔ایئرلائن ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان سمیت مختلف ممالک کے سفارت کار بھی مسافروں میں شامل ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی طیاروں کی لینڈنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد ہی ایئرپورٹ دیگر پروازوں کے لیے فعال ہوگا۔سول ایوی ایشن ذرائع کے مطابق دوپہر بارہ بجے سے ایئرپورٹ پر کوئی لینڈنگ ہوئی اور نہ ہی کسی طیارے نے ٹیک آف کیا ہے۔بھارتی دارالحکومت دہلی سے کابل پہنچنے والی ائیر انڈیا کی پرواز فضائی حدود میں چکر کاٹتی رہی۔ یہ پرواز اے آئی 243 ایک بج کر 42 منٹ پر کابل پہنچی، تاحال لینڈنگ نہ کرسکی
افغان طالبان نے کابل میں لڑائی نہ کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اتوار کے روز امارت اسلامیہ افغانستان کے تازہ ترین اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ خدا کا شکر ہے کہ اللہ رب العزت کی مدد اور لوگوں کی وسیع حمایت سے ملک کے تمام حصے امارت اسلامیہ کے کنٹرول میں آ گئے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ تاہم ، چونکہ دارالحکومت کابل ایک بڑا اور گنجان آباد شہر ہے ، امارت اسلامیہ کے مجاہدین طاقت یا جنگ کے ذریعے شہر میں داخل ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے ، بلکہ کابل میں پرامن طریقے سے داخل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کسی کی جان ، مال اور عزت پر سمجھوتہ کیے بغیر اور کابلیوں کی زندگیوں سے سمجھوتہ کیے بغیر محفوظ اور محفوظ طریقے سے یہ عمل مکمل ہوگا۔ امارت اسلامیہ اپنی تمام افواج کو ہدایت کرتی ہے کہ وہ کابل کے دروازوں پر کھڑے رہیں ، شہر میں داخل ہونے کی کوشش نہ کریں۔ نیز ، منتقلی کے عمل کی تکمیل تک ، کابل شہر کی سیکورٹی برقرار رکھنا ضروری ہے۔ ہم اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ امارت اسلامیہ کسی سے انتقام لینے کا ارادہ نہیں رکھتی ، وہ تمام لوگ جنہوں نے کابل انتظامیہ میں فوجی اور سویلین شعبوں میں خدمات انجام دی ہیںکسی کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی انہیں معاف کیا جائے گا۔ سب کو اپنے اپنے ملک میں رہنا چاہیے ، اپنی جگہ اور گھر میں ، اور ملک چھوڑنے کی کوشش نہ کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام افغان ، زندگی کے ہر شعبے سے ، مستقبل کے اسلامی نظام میں خود کو ایک ذمہ دار حکومت کا ساتھ دیں جو سب کے لیے قابل قبول ہو
طالبان نے افغانستان میں امریکہ کا بڑی تعداد میں عسکری سازوسامان قبضے میں لے لیا۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق طالبان نے 60 لاکھ ڈالر کے امریکی بلیک ہاک ہیلی کاپٹروں سمیت کئی ٹن کا امریکی سازوسامان قبضے میں لے لیا۔ جبکہ قبضے میں لیے گئے ہیلی کاپٹر کی قندھار شہر میں پرواز بھی کی گئی۔امریکہ نے طالبان سے لڑنے کے لیے افغان حکومت کو اربوں ڈالر کے ہتھیاروں اور آلات فراہم کیے تھے لیکن مقامی حکومتوں کے خاتمے اور افغان فوج کی شکست کے بعد اب یہ عسکری سازوسامان طالبان کے استعمال میں آ رہا ہے۔امریکہ کے جدید ترین ہیلی کاپٹروں کا طالبان کے قبضے میں آنے سے ان کی طاقت میں اضافہ ہوگیا ہے ۔کیونکہ اب طالبان کی جانب سے ہوائی حملے کا بھی امکان بڑھ گیا ہے۔دوسری جانب طالبان نے جلال آباد پر بغیر لڑے ہی کنٹرول حاصل کر لیا اور گورنر جلال آباد نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے
طالبان جلال آباد اور مزار شریف پر کنٹرول کے بعدکابل کے مضافات میں داخل ہوگئے ۔ طالبان کابل کے مضافات میں ضلع کلاکان، کاراباغ اور پغمان میں کسی مزاحمت کے بغیر پہنچے غیر ملکی خبر ایجنسی نے افغان وزارت داخلہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ طالبان کابل میں چاروں اطراف سے داخل ہوئے۔ دوسری طرف افغانستان کے دارالحکومت سے سفارتی اور بین الاقوامی عملے کی واپسی کے لیے کوششوں کو تیز کر دیا گیا ہے۔ خبر ایجنسی کے مطابق اتوار کی صبح کئی ہیلی کاپٹروں کو امریکی سفارتخانے آتے دیکھا گیا ہے۔ یہاں بکتر بند گاڑیاں کی آمد کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ سفارتی عملے کی جانب سے حساس دستاویزات کو جلایا گیا ہے اور سفارتخانے سے دھواں اٹھتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق نیٹو اہلکار نے بتایا ہے کہ کابل میں یورپی یونین کے ممبران کو ایک نامعلوم حفاظتی مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔طالبان نے اتوار کی صبح افغانستان کے مشرقی شہر کا کنٹرول سنبھال لیا اور اب صرف دارالحکومت کابل ہی واحد بڑا شہر ایسا ہے جو حکومت کے پاس ہے۔جلال آباد کے ایک رہائشی احمد ولی نے بتایا کہ ہم آج صبح اٹھے تو شہر میں ہر طرف طالبان کے سفید جھنڈے لہرا رہے تھے۔ وہ کسی لڑائی کے بغیر شہر میں داخل ہوئے۔خیال رہے کہ گزشتہ روز طالبان نے بلخ صوبے کے دارالحکومت مزار شریف کا کنٹرول حاسل کیا تھا ۔اس سے قبل طالبان نے دو مزید صوبوں پکتیا اور پکتیکا کے دارالحکومتوں کا کنٹرول حاصل کیا تھا۔ طالبان تین ہفتے سے بھی کم عرصے میں شمالی، مغربی اور جنوبی افغانستان کے زیادہ تر علاقوں پر کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔
افغانستان میں طالبان نے 34 میں سے 24 صوبائی دارالحکومتوں کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے ۔تجارتی مرکز قندھار کے بعد طالبان نے مزار شریف اور جلال آباد کا بھی کنٹرول سنبھا لیا ہے۔ ٹی وی رپورٹ کے مطابق طالبان نے جلال آباد میںگورنر ہاس، انٹیلیجنس آفس، پولیس ہیڈ کوارٹر اور دیگر تمام اعلی عہدیداران کی عمارتوں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔جلال آباد کابل سے قریب 150 کلو میٹر دور مشرق میں واقع ہے۔ اطلاعات کے مطابق قبائلی رہنماں کی مشاورت کے بعد جلال آباد بغیر لڑائی کے طالبان کے حوالے کر دیا گیا